تجدید کے اصول وضوابط ۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 19 اکتوبر 2018


تجدید کے اصول وضوابط 
 خطبہ جمعہ مسجد الحرام  (اقتباس) 
 10 صفر 1440ھ بمطابق 19 اکتوبر 2018ء
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبد العزیز السدیس حفظہ اللہ
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر 

↪ منتخب اقتباس ↩

ہر طرح کی حمد و ثناء اللہ تعالی کے لیے ہے۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں، اسی سے معافی کا سوال کرتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس کی کامل نعمتوں، اور حیرت انگیز نشانیوں پر اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔
اللہ کی ایسی تعریف بیان کرتے ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں۔ چھپی ہوئی چیزیں بھی اسی کی بنائی ہوئی ہیں اور ظاہر چیزیں بھی اسی کی تخلیق ہیں۔
ہر صبح کی تازہ ہوا کے ساتھ اور بادل سے برسنے والے ہر قطرے کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں اور سلامتیاں نازل ہوتی رہیں۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی نے ہمیں اپنی واضح شریعت سے مختص فرمایا ہے، یہ شریعت اپنی عظمت اور بلندی کی وجہ سے جہانوں میں پھیل گئی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہذیبوں کی تعمیر وترقی کا راستہ واضح فرمایا- اے اللہ! رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت والی آل، بلندی میں ثریا کے تاروں کو چھونے والے چنیدہ اور نیک صحابہ کرام پر، تابعین اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر بھی پاکیزہ بابرکت اور بے انتہا سلامتی نازل ہوتی رہے۔

اے مسلمانو!

دانش مندوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے، بلکہ بڑی بڑی اور طاقتور تہذیبوں نے بھی یہ گواہی دی ہے کہ ہماری واضح اور روشن اسلامی شریعت نے دنیا کی ظلمات کو نور میں بدل دیا ہے۔ دنیا والوں کے سخت حسد اور شدید کینے کے مقابلے میں بھی اپنے واضح اور ناقابل تبدیل اصولوں کی بدولت قائم رہنے میں کامیاب رہی ہے اور دنیا والوں میں اپنی عظیم رحمت اور بلند اخلاق کا بیج بونے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یہ شریعت، انتہائی کشادہ اور وسیع شریعت ہے۔ اس کے پھول اور پتے انتہائی خوشبودار ہیں، شمولیت اور کمال اسکی خاصیتیں ہیں اور یہ لوگوں کی دنیا اور آخرت کے معاملات کو سدھارتی ہے۔ احکامِ شریعت تو صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے دینِ قویم کا عظیم اصول ہے۔ اللہ تعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’اے نبیؐ، پھر ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور اُن لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘
(الجاثیۃ: 18)

اے مسلمانو!
ہماری واضح اور پرنور شریعت، دنیا وآخرت کے حوالے سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے جامع اصولوں سے بھری پڑی ہے۔ اس کی نصوص، اس کے مقاصد، اس کی حکمتوں اور اس کے شاندار قواعد کی بدولت ہی دنیا میں عدل، حکمت، نرمی اور آسانی پھیلی ہے۔ اس میں اجتہادی مسائل اور عصر جدید میں پیش آنے والے نئے مسائل کے احکام بھی موجود ہیں۔ شریعت نے اِن احکام کو بھی واضح کیا ہے اور ایک میزانِ دقیق، طے شدہ معیار اور واضح اصولوں کے مطابق ان میں بھی حلال وحرام کو واضح فرمایا ہے۔ انہی اصولوں پر علمائے اسلام اور مجتہدین امت عمل کرتے رہے ہیں اور انہی اصولوں کی بدولت معاشروں اور افراد کی فلاح وبہبود ممکن ہو سکی ہے، انہیں اپنا کر اجتہادی اور جدید مسائل میں صحیح اور درست رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ شریعت کوئی جامد شریعت نہیں ہے، اس کے احکام خشک، یا بہتری اور ترقی سے مستثنی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ انتہائی لچک دار اور ہر دم ترقی کرنے والی شریعت ہے۔ یہ عصر حاضر کے تقاضوں اور جدید ٹیکنالوجی کے مطابق ڈھلنے کے خلاف ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ مسائل اور نتائج میں کمال توازن برقرار رکھتی ہے، طے شدہ اصولوں اور قابل ترمیم احکام کو مدنظر رکھتی ہے، اصول پرستی اور تجدید پر بیک وقت عمل کرتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تجدید بڑا پرکشش لفظ اور معنی خیر کلمہ ہے۔ اس پر عمل کرنے کے لیے بہت بڑی عقل کی ضرورت ہے۔ آیات و احادیث سے احکام نکالنے میں کمال مہارت درکار ہے، مسائل کی فرعی تقسیم، چھوٹے مسائل کو اصولی مسائل کے ساتھ ملانے، فرعی مسائل کو طہ شدہ اصولوں پر ڈھالنے، فقہی اصولوں پر مسائل کو جانچنے اور ہر مسئلے کو شریعت کے مقاصد کے مطابق پرکھنے کی کمال صلاحیت درکار ہے، تاکہ کسی بھی مسئلہ کے متعلق صحیح شرعی حکم صادر کیا جاسکے۔

امام ابو داؤد اور امام حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ امت کے لیے ہر ایک سو سال کے بعد ایسا شخص ضرور بھیجتا ہے جو اس کے دین کی تجدید کردیتا ہے۔

اے مومنو!
تجدید کے روشن اور جگمگاتے اصول اور پر نور ضوابط ہمارے دین کا حصہ ہیں۔ ان میں سے ایک اہم ترین اصول یہ ہے کہ تجدید کتاب و سنت کے کسی حصے کے خلاف نہ ہو اور شریعت کے مقاصد میں سے کسی مقصد کی زد پر نہ ہو، کیونکہ تجدید میں اگر کتاب وسنت کی حفاظت کا بھی خیال نہ رکھا گیا اور مقاصد شریعت کو مد نظر نہ رکھا گیا، تو شریعت کی بقا بھی ممکن نہیں رہے گی۔ مقاصد شریعت کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ شریعت انہی کی حفاظت کے لیے بنائی گئی ہے۔

امام ابن عاشور علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: شریعت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دنیا کا نظام صحیح طرح چل سکے اور لوگوں کے لیے ایسے اصول وضع کیے جائیں جن کی بدولت وہ ہلاکت اور فساد سے محفوظ رہ سکیں۔

تجدید کے بنیادی اصول میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں اہل علم اور اہل حل وعقد ہی ہاتھ ڈالیں، کیونکہ شریعت کے مقاصد کو سمجھنے اور ان کے مطابق مسائل کو ڈھالنے کے لیے ایسے اہل علم کی ضرورت ہے جو اجتہاد میں کمال کی مہارت رکھتے ہوں، دین کی بنیادوں کو ٹھیک طرح سمجھتے ہوں، دین کے اصولوں کو خوب جانتے ہوں اور ہر مسئلے کو شریعت اسلامیہ کے میزان میں ڈال کر جانچ سکتے ہوں۔

اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ تجدید صرف فرعی مسائل میں، دین کے چھوٹے حصوں میں، شرعی مقاصد تک پہنچنے کے طریقوں میں، لفظوں کے چناؤ اور جملے کی ترتیب میں اور اس سے ملتے جلتے احکام میں ہو۔ شرعی مسائل کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان میں بڑی لچک پائی جاتی ہے اور یہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں قابل عمل ہوتے ہیں۔ ان میں ہر انسان کے حالات، زندگی کے بدلتے احوال، معاشروں کے اختلاف، رسم و رواج کے تنوع اور خصوصی حالات کو مدنظر رکھا گیا ہوتا ہے۔ شریعت بھی یہی سمجھتی ہے اور عقلی تقاضا بھی یہی ہے کہ شریعت میں ان تمام چیزوں کا خیال رکھا جائے۔

تجدید کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ شریعت کے کسی اہم مقصد کی تکمیل کے لیے کی جائے یا کسی ایسی برائی کو ٹالنے کے لیے کی جائے جس کا آنا یا تو یقینی ہو یا اس کا احتمال بہت زیادہ ہو۔ کیونکہ یہ شریعت کے احکام لوگوں کی دنیا وآخرت سنوارنے کے لیے آئے ہیں۔

اسی طرح تجدید کے لیے ضروری ہے کہ کتاب وسنت کی صحیح اور درست سمجھ کو غلط تشریحات اور تاویلات سے ممتاز کیا جائے۔ آیات واحادیث میں سے شرعی احکام کو اخذ کرنے کے طریقہ کار میں سلف صالحین کے طریقے پر چلا جائے اور اس طریقے کے خلاف جانے والے تمام طریقوں کو شرعی نظر سے دیکھ کر خوب پرکھا جائے اور شریعت سے قریب ترین رائے کو راجح قرار دیا جائے۔

اسی طرح اقدار کے مقاصد کو بھی شریعت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے اور ان کے مفید یا ضرر رساں ہونے کا فیصلہ خواہشاتِ نفس کے مطابق نہیں بلکہ شریعت کے طے شدہ اصولوں کے مطابق کرنا چاہیے۔

امام شاطبی علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: جن مصلحتوں سے لوگوں کی زندگی درست ہوتی ہے، انہیں اِن کے خالق اور موجد کے سوا کوئی صحیح طرح نہیں جان سکتا۔ انسان کو اِن مصلحتوں کے بہت تھوڑے پہلوؤں کا علم ہوتا ہے اور جو پہلو اس سے پوشیدہ ہوتے ہیں، وہ معلوم پہلووں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں، جو ایک کام کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ کبھی بھی اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر پاتے یا اپنی محنت کا پھل کبھی کھا نہیں پاتے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے، تو ہمیں چاہئے کہ جس چیز کو شریعت نے مصلحت تسلیم کیا ہے، ہم بھی اسی کو مصلحت تسلیم کریں، کیونکہ ایسا کرنے سے ہی مصلحت حاصل ہو سکتی ہے۔

اے امت اسلام!

جہاں تک اختلافی مسائل کا معاملہ ہے، تو ان کے حوالے سے ہمارے دل کشادہ ہونے چاہیں، اختلاف کرنے والے اور جن سے اختلاف کیا جائے، دونوں کو رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، دوسرے کو غلط کہنے کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔ شریعت میں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ جس معاملے میں اختلاف کی گنجائش موجود ہو ان میں اختلاف کرنے والے کو کبھی غلط نہیں کہا جاتا۔ فتویٰ زمانے، علاقے، معاشرے، حالات، عادات وتقالید اور افراد کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ مگر حکمران کا حکم اختلاف کو ختم کردیتا ہے اور اس کا حکم مصلحت کے مطابق ہی ہوتا ہے۔

اے اہل ایمان!

ان اہم اصولوں کو سمجھنے کے بعد ہمیں چاہیے کہ اسلام کی روشن تہذیب کو اپنانے کی کوشش کریں، جو کہ انسان کی تہذیب اور لوگوں کی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ امت کے علماء، حکمرانوں اور دانشمندوں کو دعوت دیں کہ وہ دین کے طے شدہ اصولوں پر قائم رہتے ہوئے احکامِ دین کی تجدید کے لیے چند بنیادی اصولوں پر اتفاق کر لیں۔ سب مل کر ایک ایسا لائحہ عمل تشکیل دیں کہ جس کی بدولت امت کو فتنوں سے بچایا جا سکے، اس کے مسائل حل کیے جا سکیں اور اس کی نسل کی جانوں کی حفاظت کی جا سکے۔ اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب عالم اسلام کے کچھ علاقوں سے جنگوں اور لڑائیوں کے اسباب کو ختم کر دیا جائے گا۔ فرقہ واریت جیسی برائی اور علاقائی تعصب جیسی مذموم عادت کو جڑھ سے اکھیڑ دیا جائے گا۔ اکثر جھگڑوں، لڑائیوں، بدترین فتنوں اور امت میں عدم استحکام کے پھلاؤ کا سبب ایسے ہی تعصب ہوتے ہیں۔

اسلامی شریعت ہدایت اور استقامت کی شریعت ہے، وسطیت اور اعتدال کی شریعت ہے، رحمت اور رواداری کی شریعت ہے، امن اور استحکام کی شریعت ہے، سکون اور سلامتی کی شریعت ہے۔ فرمان الہی ہے:
’’یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کج روی سے بچو‘‘
(الانعام: 153)

اے امت ایمان!

اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد کرنا چاہیے اور ان کا ذکر کرنا چاہیے۔ چناچہ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس ملک کی صورت میں ہمیں ایک شاندار نعمت عطا فرمائی ہے جو شرعی، اخلاقی اور تہذیبی اصولوں پر قائم ہے۔ یہ دوسرے ملکوں کے لیے ایک شاندار نمونہ اور اچھے اخلاق پر قائم رہنے میں ایک بہترین مثال ہے۔ اس لئے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس کا ساتھ دیں، تعمیر وترقی، اتحاد واتفاق اور اس کی تہذیب پر ہونے والے بدترین حملوں کا مقابلہ کرنے میں اس کے حکمرانوں اور اس کے علماء کے ساتھ کھڑے ہوں۔

یہی وہ ملک ہے جہاں حکمت کے ساتھ بھلائی کی دعوت دی جاتی ہے، یہاں نرمی بھی ہے، درست اور پاکیزہ طریقہ بھی ہے۔ منہجِ حق کی پیروی کا نتیجہ بھی یہی ظاہر ہوا ہے، یہاں بردباری اور علم کے راستے بھی روشن ہے۔

ہم انصاف پسند لوگوں کے موقف کو، عقل وحکمت پر مبنی بیانات کو سراہتے ہیں، جن میں ٹھہراؤ اور حق کا ساتھ دینے کاجذبہ نظر آتا ہے، جو مبنی بر حقیقت ہیں اور جن میں اندازوں اور گمان پرستی سے دوری نظر آتی ہے۔ ایسے انصاف پسند لوگ الزامات اور جھوٹی خبروں کی بنیاد پر کوئی موقف اختیار نہیں کرتے۔ فرمان الٰہی ہے:
’’بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں‘‘
(فاطر: 43)
اسی طرح فرمایا:
’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘
(یوسف: 21)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں‘‘
(منافقون: 8)

اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! نبی مصطفیٰ اور رسول مجتبیٰ پر درود و سلام بھیجو۔ اللہ تعالی نے آپ کو اسی کا حکم دیا ہے۔ کلام پاک میں اس کا فرمان ہے:
’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو‘‘
(الاحزاب: 56)

اے اللہ! تمام مسلمان حکمرانوں کو کتاب و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ انہیں اپنے نیک بندوں پر رحم کرنے والا بنا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں