زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

Image result for masjid nabawi haramain
زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع - خطبہ جمعہ مسجد نبوی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 30-جمادی اولی- 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان " زندگی آخرت کی تیاری کا واحد موقع " ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ بہت زیادہ دنیا کی جانب مائل ہو چکے ہیں، ان کی زندگی کا اولین مقصد دنیا ہے، ان کی سوچ دنیا سے بالا تر ہو نے کی سکت نہیں رکھتی، ان کے ہاں دوستی اور تعلق داری کا یہی ایک معیار ہے، حالانکہ کامیاب شخص آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے اور اللہ تعالی کے فرامین کی عملی شکل بن کر زندگی گزارتا ہے، اللہ کا فرمان یہ ہے کہ آخرت کی تیاری رکھو اور دنیا کے لیے بقدر ضرورت تگ و دو کرو، یہی وجہ ہے کہ ہمیں اللہ تعالی نے مختلف دعاؤں میں دنیا و آخرت دونوں کی بھلائیاں طلب کرنے کا حکم دیا ہے، دنیا کے لیے جینے والا شخص ہمیشہ ذہنی اسیری والی زندگی گزارتا ہے، اس کی فکری یکجہتی مفقود ہوتی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آخرت کو اپنا ہدف بنانے سے بہت سے معاملات آسان ہو جاتے ہیں پھر اس کے نتیجے میں دنیا بھی ذلیل ہو کر اسے ملتی ہے، فرامین الہیہ کے مطابق آخرت کو بھول جانے والا انتہائی خسارے میں ہے، اور دنیا کے اسیر کی علامت یہ ہے کہ وہ دنیا ملنے پر خوش وگرنہ ناراض رہتا ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس دنیا سے تعلق ایک مسافر جیسا تھا جو سستانے کے لیے کسی سایے دار درخت کے نیچے بیٹھے اور پھر روئے منزل چل دے اور یہی طرزِ زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے، آخر میں انہوں نے سب کےلیے جامع دعائیں فرمائیں۔

منتخب اقتباس:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے جس کا فرمان ہے: 
{بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى}
 بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت تمہارے لیے بہترین اور دائمی ہے۔[الأعلى: 16، 17]

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہی اعلی اور بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ! اُن پر، اُن کی آل، اور تمام متقی صحابہ کرام پر رحمتیں، سلامتی، اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو!

آج کچھ لوگوں کے حالات کو گہری نگاہ سے دیکھنے والا اس نتیجے پر پہنچے گا کہ وہ بہت زیادہ دنیا کی جانب مائل ہو چکے ہیں، حصولِ دنیا میں مگن ہیں، یا ان کا ہدفِ زندگی صرف دنیا ہے جس کی وجہ سے وہ صرف دنیا کے لیے ہی سوچتے ہیں، ان کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار یہی دنیا ہے، ان کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی اسی دنیا کی خاطر ہوتی ہے، ان کے بارے میں کسی نے سچ کہا کہ:

ہر آفت زدگی کی علامت ہوتی ہے، اور تمہاری علامت ہے کہ تم ہوس پرستی سے باہر نکلتے نظر نہیں آ رہے۔

جبکہ کامیاب مومن شخص اپنی آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتا ہے، اور اپنی زندگی اسی نہج پر گزارتا ہے جس کی اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں منظر کشی کی اور فرمایا:
 {وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ}
 جو مال اللہ نے تجھے دے رکھا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور اپنا دنیاوی حصہ بھی فراموش نہ کر۔ اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے۔ [القصص: 77]
اسی لیے مومن حصول رزق حلال کے لیے اسباب اپنا کر مقدور بھر کوشش کرتا ہے، اور اس دھرتی کو رضائے الہی کا موجب بننے والے کردار سے آباد رکھتا ہے۔

پھر دنیا سے صرف اتنا مستفید ہوتا ہے کہ اس کا مذہبی تشخص اور آخرت متاثر نہ ہو یہی اللہ تعالی کے فرمان: {وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا} اور دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو [القصص: 77] کے دو معنوں میں سے ایک معنی ہے۔

مزید اللہ تعالی نے کا فرمان ہے:
 {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ}
 ہمارے پروردگار ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی ، نیز ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ [البقرة: 201]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اس دعا نے دنیا کی تمام بھلائیاں سمولی ہیں اور ہر قسم کی برائی کو مٹا کر رکھ دیا ہے؛ کیونکہ اس دعا میں " حَسَنَةً " سے صحت، وسیع گھر، اچھی بیوی، کشادہ رزق، علم نافع، بہترین کارکردگی اور اچھی سواری سمیت ناموری جیسی تمام ضروریات مراد ہیں "

اسلامی بھائیو!

جو شخص اپنا بنیادی مقصد آخرت کو بنا لے، اسی کے لیے تگ و دو کرے تو اللہ تعالی اس کی دنیاوی ضروریات خود ہی پوری فرما دیتا ہے، لیکن جس کے دل پر دنیاوی فکر قابض ہو جائے، اس کا بنیادی مقصد دنیا ہی بن جائے تو وہ ہمیشہ ذہنی غلامی کی زندگی گزارتا ہے، اس کی سوچ بکھری ہوئی ہوتی ہے، وہ ذہنی یکسوئی سے محروم ہوتا ہے، اس کا فراوانی میں بھی پیٹ نہیں بھرتا، اور تھوڑی چیز پر خوش نہیں ہوتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس کا مقصودِ زندگی آخرت ہو اللہ اس کے دل میں بے نیازی پیدا کر دیتا ہے، اور اسے دل جمعی عطا کرتا ہے ، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ہو کر آتی ہے۔ اور جس کا مقصود دنیا ہو، اللہ تعالی اس کی محتاجی اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس کے معاملات بکھیر دیتا ہے، اور دنیا اس کے پاس اتنی ہی آتی ہے جو اس کے مقدر میں ہے) اس حدیث کو احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، عراقی رحمہ اللہ کے مطابق اس کی سند جید ہے، جبکہ دیگر محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

اللہ کے بندو!

جو شخص آخرت بھول کر اپنی شہوت کے پیچھے لگ جائے اور اللہ تعالی کی شریعت سے رو گردانی شروع کر دے تو وہ بہت بڑے خسارے میں پڑ گیا ہے، وہ بڑی بدبختی میں ملوث ہو چکا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ}
 اے ایمان والو! تمہیں تمہارے اموال اور اولاد ذکرِ الہی سے غافل نہ کر دیں، اور جو غافل ہو گیا تو وہ ہی خسارہ پانے والے ہیں۔[المنافقون: 9]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (دیناروں کا غلام تباہ ہو گیا، درہموں کا غلام تباہ ہو گیا، لباس کا غلام تباہ ہو گیا، وہ بار بار گرنے کیلیے تیار رہتا ہے، اور جب اس کو کانٹا بھی چبھ جائے تو کوئی اس کا کانٹا نکالنے والا نہیں ہوتا۔ اگر اسے کچھ دے دو تو راضی رہتا ہے اور اگر کچھ نہ دو تو ناراض ہو جاتا ہے۔)

اس لیے اللہ کے بندو! اللہ سے ڈور، اور ایسے کسی بھی اقدام سے احتراز کرو جو تمہیں رضائے الہی سے دور لے جائے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا (16) وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى}
 بلکہ تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالانکہ آخرت تمہارے لیے بہتر اور دائمی ہے۔[الأعلى: 16، 17]

مسلمانو!

 اس وقت بہت سے لوگوں کے دلوں پر دنیا کی چکا چوند کا قبضہ ہے، دنیاوی رنگینیوں اور لذتوں کے لیے بہت سے مسلمانوں کے دل ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، تو ایسے میں مسلمان کو محاسبۂ نفس والی نگاہ سے دیکھنا چاہیے تا کہ حقائق واضح ہو سکیں اور ممکنہ نتائج کی آشنائی ملے؛ چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا}
 مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں آپ کے رب کے ہاں جو باقی رہنے والا ہے وہ نیک اعمال ہیں ان پر امید رکھنا بھی بہتر ہے۔ [الكهف: 46]

اور یہ نبوی وصیت کو عملی جامہ پہنانے کیلیے گوش گزار فرمائیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے سے پکڑا اور وصیت میں فرمایا: (دنیا میں ایسے رہو کہ گویا تم اجنبی ہو یا راہ گزرتے مسافر)" اسی لیے ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی کہا کرتے تھے: "جب تم شام کر لو تو [اخروی عمل کے لیے]صبح کا انتظار مت کرو، اور جب صبح کر لو تو شام کا انتظار مت کرو، اپنی صحت کے ایام میں بیماری کے لیے اور زندگی میں موت کے لیے کچھ اسباب اپناؤ" بخاری


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں