خود میں تبدیلی ۔۔۔ استاد نعمان علی خان ۔۔۔پانچواں حصہ

خود میں تبدیلی (Self- Transformation)
استاد نعمان علی خان
پانچواں حصہ


‎میں مطابقت کے حوالے سے بات کرنا پسند کروں گا. جس سے ان بنیادی تصورات کی وضاحت ہوگی جو یہاں بیان ہوئے ہیں. آپ ذرا پہلے زمانے کے کسی غیر ترقی یافتہ گاؤں کا تصور کریں، جہاں کے رہنے والے بھی زیادہ مہذب نہ ہوں. ان کے پاس قوانین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ بھی نہیں. ایک دن ان کے پاس باوردی فوجیوں پر مشتمل، ایک گھڑسوار وفد آتا ہے، ساتھ ایک منفرد لباس میں ملبوس سفارت کار بھی ہے. واضح رہے کہ یہ سفیر اس علاقے سے تعلق نہیں رکھتا، وہ مقامی لوگوں کے پاس آکر اپنے بادشاہ کی طرف سے بھیجا گیا ایک لمبا سا فرمان کھول کر پڑھنا شروع کر دیتا ہے- کہ ان کا بادشاہ اس گاؤں کا اپنے ساتھ الحاق کرنا چاہتا ہے اور اپنی سلطنت کا حصہ بنانے کے بعد وہ ان کو کچھ فائدے بھی دے گا- یہاں کے لوگوں پر کچھ قوانین کا اطلاق بھی ہوگا. اب لوگوں کا متوقع ردعمل یہ ہوگا کہ وہ اس سے دریافت کریں گے کہ تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم واقعی کسی بادشاہ کے نمائندے ہو؟ ایسے موقع پر وہ سفیر جواباً کوئی شاہی سکے یا قیمتی چیزیں دکھائے گا جو شاہی دربار سے متعلقہ ہوں گی. اب اگر آپ کو اس شاہی وفد اور سفارت کار پر یقین آجائے، تو پھر آپ کا اگلا لائحہ عمل یہ ہو گا کہ آپ اس بادشاہ سے ملنا چاہیں گے. اس ملاقات کے لئے آپ اپنے آپ کو صاف ستھرا کر کے بہترین لباس زیب تن کریں گے. دربار کے سارے لوازمات کا اہتمام کریں گے - 
‎یہ عرب، اللہ تعالٰی کے معجزانہ الفاظ کا تجربہ کر رہے تھے. وہ الفاظ ان کو حلیم و بردبار بنا رہے تھے. ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ ایک دفعہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے پاس بحث و مباحثہ کے لیے آئے. آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) آیات تلاوت کر رہے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اس آیت پر پہنچے جہاں اللہ تعالٰی کی طرف سے سجدہ کا حکم ہے تو ہر کوئی سجدہ میں گر گیا، کافروں کا وہ سارے کا سارا وفد سجدہ ریز ہوگیا. دیکھئے قرآن کے الفاظ نے ان کو کتنا مغلوب کر دیا تھا، اسی طرح حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے لوگوں کو قرآن کی معجزانہ طاقت سے متعارف کروایا

پہلا کام جو اللہ کے نبی کرتے تھے:
‎1_ يَتْلُوْا عَلَيْـهِـمْ اٰيَاتِهٖ 
وہ ان پر آیات پڑھتے تھے

‎ وہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ الفاظ کسی انسان کی طرف سے نہیں ہیں، بلکہ ایک بہت عظیم الشان اور طاقتور ہستی سے تعلق رکھتے ہیں. اب کچھ لوگ ان الفاظ کو پہچان کر قبول کر رہے ہیں. یہی لوگ پاک صاف بھی ہونا چاہتے ہیں. اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہر وقت حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں، ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے گرد ایک سوسائٹی بنا لی ہے. 

دوسرا کام: 
‎ 2_ وَيُزَكّيهِم 
انہیں پاک کرتے تھے

‎چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی طرف سے مسلسل یاد دہانی کا عمل جاری ہے. جس سے ان کو فائدہ پہنچ رہا ہے. 
‎ آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے الفاظ کے ذریعے لوگوں کو مسلسل نصیحت کر رہے ہیں. 
‎ اس سے دو نتائج مل رہے ہیں، ایک تو ان کے دل لالچ، حسد، مادیت پرستی دنیاوی خواہشات سے پاک ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور دوسرا ان کے دل اللہ کے سامنے جھک جاتے ہیں اور وہ اللہ کے ساتھ جڑنا شروع ہو جاتے ہیں. اور مادی چیزوں سے تعلق کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے. وہ چیزوں کو زیادہ شائستگی اور خوبصورتی سے دیکھنے لگتے ہیں. ان کے ذہن بھی تبدیل ہونا شروع ہو جاتے ہیں. یہی ہے "ویزکیہم" ... وہ ان کو پاکیزہ بنا رہا ہے. 

تیسرا کام
‎ 3_ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتابَ
اور انہیں کتاب سکھاتے

‎ اب تبدیلی کا تیسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے. اب وہ ان چیزوں پر تنقید کر رہے ہیں جن پر پہلے نہیں کرتے تھے. وہ ان چیزوں کی تعریف کرنے لگتے ہیں جن کے وہ پہلے معترف نہ تھے. صفائی/ تطہیر ہو رہی ہے. کیوں کہ وحی ایک تواتر سے مسلسل نازل ہو رہی ہے. جب وہ پاکیزگی کے عروج پر پہنچتے ہیں تو ان کے دل و دماغ مکمل طور پر اللہ کے مطیع ہو چکے ہوتے ہیں. اب اللہ کے معجزات تیار ہیں. یہ لوگ مضبوط ہو چکے ہیں. غلط چیزوں کو پیچھے چھوڑنے پر تیار ہیں. 
‎ آخر کار اللہ رب العزت اپنے قوانین نازل کرنا شروع کرتے ہیں. 
‎ مثلاً کوئی ایسی خوراک جو آپ نے پچھلی ساری زندگی میں کھائی ہے. اب آئندہ نہیں کھانی. 
‎ کچھ ایسے مشروب جن کے آپ عادی تھے. اپنی گزشتہ زندگی میں خوب لطف اندوز ہوتے رہے، اب آج کے دن سے ان کو پینا منع ہے. 
‎ کچھ مخصوص کپڑے، جیسا کہ عموماً خواتین لوگوں کے اجتماع میں خوبصورت لگنے کے لیے اپنے آپ کو مختلف چیزوں سے آراستہ کرتی ہیں، لیکن اب قرآن کہتا ہے کہ آئندہ تم نے ایسا لباس زیب تن نہیں کرنا. یعنی اللہ تعالٰی ہمیں قوانین سے متعارف کروا رہے ہیں. 
‎ جب یہ احکامات بھیجے گئے تو لوگ فوراً ان پر عمل پیرا ہو گئے. یہ سب کیونکر ہوا؟ کیونکہ تبدیلی کے پہلے دو مراحل گزر چکے تھے. یعنی تبدیلی کافی لمبے عرصے سے رواج پا رہی تھی. 

‎يَتلو عَلَيهِم آياتِهِ وَيُزَكّيهِم 

‎کافی عرصہ سے اللہ کے معجزانہ کلام کی ‎تلاوت ہو رہی تھی۔ لوگ اللہ کے الفاظ کے ذریعے حلیم اور بردبار ہو چکے تھے. چونکہ کلام الہی مسلسل ان کی تطہیر کر رہا تھا، اس لیے وہ اب قوانین /احکامات لینے کے قابل ہو گئے تھے

‎حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں 
‎کہ اگر قرآن کا پہلا حکم ہی یہ ہوتا، کہ شراب مت پیو، تو خدا کی قسم لوگ اس کو کبھی نہ چھوڑتے. 

‎ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتابَ 
‎ وہ کتاب سیکھاتا ہے 

‎ہمیں اسلام کے اصولوں کو انٹرنلائز کرنا چاہیے. جیسے آج کل بچوں کو منع کیا جاتا ہے کہ یہ حرام، یہ حرام ہے. ایسا مت کیجئے اگر آپ ان میں واقعی کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ کو بھی اسی طریقہ پر چلنا ہو گا جو قرآن نے بتائے ہیں 

‎اب اس تبدیلی کے عمل کا آخری نکتہ آگیا ‎ہے. جس کا سفر کبھی ختم ہونے والا نہیں 


وَالحِكمَة
‎وہ ان کو حکمت سکھاتا ہے

‎ہم حکمت کو کبھی نہ ختم ہونے والا سفر کیوں کہہ رہے ہیں؟ 
‎ قوانین /احکامات، قواعد و ضوابط کا ایک محدود مجموعہ ہیں. مثلاً یہ منع ہے،یا یہ حرام ہے وغیرہ. 
‎ اسی طرح یہ لازم ہے، یا یہ ضروری ہے. جیسے پانچ وقت کی نماز فرض ہے. زندگی میں ایک دفعہ (اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو) حج لازم ہے. سال میں ایک ماہ کے روزے فرض ہیں. یعنی احکامات کی تعداد محدود ہے. یہ بہت منظم ہیں. اسلام میں لامحدود قوانین کا تصور نہیں. 
‎ لیکن حکمت ایک بالکل ہی مختلف چیز ہے. کبھی نہ ختم ہونے والی. زندگی کے ساتھ ساتھ چلنے والی. قرآن کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، کسی مسلمان کی ساری زندگی اس کی حکمتوں کی تلاش میں گزر سکتی ہے اور دنیا سے جاتے وقت اس کے ہاتھ میں حکمت و دانش کے چند موتی ہی آئے ہوں گے. یہی حکمت و دانش کی حقیقت ہے. پس اللہ فرماتے ہیں
‎ وہ حکمت سکھاتے ہیں
‎وہ لوگوں کو اللہ کی کتاب میں مشغول کرتے ہیں اور اس کے پوشیدہ خزانوں کی تلاش سکھاتے ہیں
‎ یہی وہ سارا طریقہ کار ہے جو مرحلہ وار بیان کیا گیا ہے. قوانین/احکامات کے پیچھے بھی حکمت کار فرما ہے. قوانین محض قواعد و ضوابط نہیں بلکہ ایک اخلاقی کوڈ ہے. روحانی کوڈ ہے. یعنی ان قوانین کے روحانی اور اخلاقی فوائد ہیں. قوانین کے اندر حکمت پوشیدہ ہے. 
‎ یہ تبدیلی کے وہی مراحل ہیں جو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو دئیے گئے تھے. یہی چاروں نکات ابھی آپ سے شئیر کئے گئے ہیں. ان نکات پر عمل پیرا ہو کر معاشرتی تبدیلی ممکن ہے. ایک ایسے معاشرے کی تبدیلی جو کئی نسلوں سے بھٹکا ہوا تھا.
‎ یہ قوانین آپکو بتاتے ہیں کہ آپ قرآن کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں. یہ محض پڑھنے کی کتاب نہیں ہے. یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کو آپ نے مکمل تبدیلی کے لئے عمل میں لانا ہے. 
‎ حضور پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو جو چار مشن سونپے گئے تھے.. آئیے ذرا انہیں دہرا لیں

‎ آیات کی تلاوت
‎ پاک کرنے کا عمل (تزکیہ) 
‎ احکامات سکھانے کا عمل 
‎ حکمت و دانش کی تعلیم 

‎ یہ چاروں عوامل اللہ کے چاروں ناموں پر منطبق ہوتے ہیں جو ہم نے اس گفتگو کے شروع میں دیکھے. 

‎1_ الملک (بادشاہ) 
2_القدوس (خالص) 
‎ 3_العزیز (زبردست، مختار، اتھارٹی) 
‎ 4_الحکیم (حکمت والا) 

جاری ہے۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں