دور جدید کی بد تہذیبی: پگڑی اچھالنا - خطبہ جمعہ مسجد نبوی


- خطبہ جمعہ مسجد نبوی


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ  نے مسجد نبوی میں 16-محرم الحرام- 1439 کا خطبہ جمعہ " دور جدید کی بد تہذیبی: پگڑی اچھالنا" کے عنوان پر ارشاد فرمایا  جس میں انہوں نے  کہا  کہ  انسانیت کے ارتقائی مراحل کی تکمیل کے لیے اسلام نے  پہلے پر امن زندگی کا مفہوم بتلایا پھر اس کی تکمیل کے لیے ترغیب  دیتے ہوئے تعلیمات بتلائیں ،اس کے بعد تعلیمات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کڑی سزائیں رکھیں، اس طرح اسلام نے جرائم کی روک تھام کے لیے جرائم سے پہلے اور بعد میں مثبت اقدامات کیے ،

خطبے سے منتخب اقتباس پیش ہے:

تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، اسی نے فرمایا: 
{الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ}
 جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں ظلم [یعنی شرک] کی آمیزش نہیں کی تو انہی کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔[الأنعام: 82]

اسلام نے انسانیت کو اعلی مقام دینے کے لیے  پر اطمینان  اور امن  و سلامتی والی زندگی کا فہم عطا کیا، پھر شریعت اسلامیہ  کے احکامات میں ہر قسم کی رہنمائی بھی دی، نیز پوری امت کو  اعلی اخلاقی اقدار  کی باڑ عطا کی جس کے باعث امت کے تمام گوشوں تحفظ  ملا، ساتھ میں بلند اخلاقی اقدار اور اعلی کردار کی دعوت دی جو کہ امت کو گھٹیا اور گرے ہوئے  کردار سے کہیں بلند کر دیتے ہیں، 

اسلامی تعلیمات نے جرائم کو پھیلنے سے روکنے کے لیے  جرائم کے اسباب ہی دفن کر دیے ہیں، جرائم کی وجہ بننے والی چیزوں کا خاتمہ کیا اور ان کے سر اٹھنے سے پہلے ہی ان کی سر کوبی  کر دی؛ صرف اس لیے کہ معاشرے کا امن برقرار رہے اور ہر فرد کے حقوق کو تحفظ ملے۔

اسی طرح  اسلام نے منبعِ جرائم  خشک کرنے کے لیے  معاشرے کی اعلی اخلاقی اقدار پر تربیت کی، ان کے اندر اتنی اخلاقی غیرت پیدا کی جو انہیں برائی سے روک دے، پھر اس کے بعد شریعت نے  شرعی حدود، قصاص اور تعزیری سزائیں پورے معاشرے کے امن کے لیے قائم کیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
 اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے، اے عقل والو تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 179]

ایسے جرائم جن کی تباہ کاریوں سے لوگ چیخ اٹھے ہیں اور اہل دانش ان جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر متفق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ  لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جائیں، یہ جرم گمراہی، ایذا رسانی اور دھوکا دہی  جیسے گناہوں میں ملوث ہونے کا موجب بنتا ہے، کسی کی پگڑی اچھالنا گھٹیا حرکت ہے اور تباہ کن خرابی ہے، اس سے جذبات بھڑکتے ہیں اور حساسیت بڑھتی ہے۔

کسی کی عزت اچھالنے کے  نقصانات شدید نوعیت کے ہوتے ہیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی جانب سے حرام کردہ گناہوں میں ملوث ہو جاتا ہے، معاشرے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، بلکہ متاثر شخص میں ایسے  نفسیاتی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو اسے اندر سے توڑ دیتے ہیں اور وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔

دوسروں کی عزتوں سے کھیلنے والے  اجڈ اور گھٹیا لوگوں کی روک تھام شرعی واجب ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ضرورت بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا}
 اور جو لوگ مومن مرد و خواتین کو بلا وجہ اذیت دیتے ہیں  تو وہ بہتان اور واضح گناہ اٹھا رہے ہیں۔[الأحزاب: 58]
 اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں روزِ قیامت بد ترین شخص وہ ہے جس کی بدی سے بچنے کے لیے اسے لوگ چھوڑ دیں یا  مسترد کر دیں)

پگڑی اچھالنے کے عمل کو جرم قرار دینا اور اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنا بہت بڑا عمل ہے، اس میں حکم الہی کا نفاذ بھی ہے کہ اس سے ان لوگوں کی سرزنش ہے جو دھرتی پر فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، فتنوں کو چنگاری دکھا کر امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور باطل امور میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

کسی کی عزت اچھالنا انتہائی گھٹیا حرکت ہے، ایسی حرکت وہی کرتے ہیں جو کمزور دل اور بے عقل ہوں، جن کے دلوں میں بیماری ہو، جن کے ہاں اخلاقی گراوٹ پائی جائے، مروّت کا پاس نہ رکھتے ہوں، اور یہی عزتیں اچھالنے والے قبیح اعمال میں ملوث ہوتے ہیں۔

کسی کی پگڑی اچھالنے کی کئی ایک صورتیں ہیں، اس کے لیے مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں، پگڑی اچھالنے کی ابتدا  بد زبانی اور بد کلامی سے شروع ہوتی ہے  جو کہ پگڑی اچھالنے والے منہ پھاڑ کر کرتے ہیں۔

اور جب انسان کی زبان لغو باتوں میں مگن ہو تو انسان اپنے آپ کو دنیا میں  تباہی کے در پے کر دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے آخرت میں اسے افلاس کا سامنا کرنا پڑے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ}
 کوئی بھی بات منہ سے نکالتا ہے تو چوکنّا نگران [اسے لکھنے کے لیے] اس کے پاس ہی ہوتا ہے۔[ق: 18]

کسی کی پگڑی اچھالنے کا عمل ہر میدان میں بڑھتا جا رہا ہے، زندگی کے تمام گوشوں پر اس کا راج ہے، بلکہ [سوشل میڈیا کی]تصوراتی دنیا  جو کہ وقت اور جگہ کی حدود سے بھی آزاد ہے اس میں یہ مزید پھل پھول رہا ہے کہ ، ایسے ایسے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں کہ  پہلے ان کا تصور تک بھی نہیں تھا؛ ان کی وجہ سے دلوں میں کدورتیں بھر گئی ہیں، دماغ خراب ہو گئے ہیں اور طبعی فطرت کو بھی اس نے تباہ کر دیا ہے۔

پگڑی اچھالنے کے طریقوں میں یہ بھی شامل ہے کہ سوشل میڈیا پر گھٹیا قسم کے ویڈیو کلپ  نشر کیے جائیں کہ جن کی وجہ سے برائی پروان چڑھتی ہے، بے حیائی پھیلتی ہے، اشتعال انگیزی پیدا ہوتی ہے اور ناقابل بیان  نقصانات  ہوتے ہیں،

ایسے ویڈیو کلپ نشر کرنے اور ان کی ترویج میں اپنا کردار ادا کرنے والوں کا انجام انتہائی برا اور بھیانک ہوتا ہے، ان کا خاتمہ درناک اور المناک ہوتا ہے، اللہ تعالی ہم سب کو برے خاتمے سے محفوظ رکھے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ}
 روزِ قیامت وہ اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اٹھائیں گے اور ان لوگوں  کا بوجھ بھی اٹھائیں گے جن کو اِنہوں نے علم نہ ہونے کے باوجود گمراہ  کیا تھا۔[النحل: 25] 

کسی کی عزت کو نشانہ بنانے کی بیماری اس لیے پھیلی ہے کہ بہت سے لوگ اعلانیہ گناہ کرنے لگے ہیں، احتیاط سے کام نہیں لیتے، برائی پر فخر محسوس کرتے ہیں اور برائی کو اچھائی سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف گھروں میں حد سے زیادہ خشک مزاجی  نے نوجوان لڑکیوں ، بچوں اور خواتین کو  ایسے لوگوں کے لیے بہت ہی آسان ہدف بنا دیا ہے۔

اہل علم،  دانش مند، با اثر شخصیات اور صحیح فکر رکھنے والے یہ جانتے ہیں کہ اس موذی مرض سے بچاؤ کا سب سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ دینی غیرت دلوں میں پیدا کی جائے، دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور قرآنی تعلیمات پر مضبوطی سے کار بند رہنے کی تلقین کی جائے، قول و فعل پر تقوی کے آثار نظر آئیں، نظریں جھکی ہوئی ہوں، لباس ڈھانپنے والا ہو، دل و دماغ عفت اور خوفِ الہی سے سرشار ہو۔

اسی طرح والدین اور اولاد کے درمیان اعتماد بھرا تعلق بھی ایک مضبوط شخصیت کو پروان چڑھاتا ہے، اس سے مثبت طریقے اور سلیقے کو مہمیز ملتی ہے، یہ اعتماد لڑکوں میں بہادری کو پروان چڑھاتا ہے اور بزدلی کو اتار پھینکتا ہے، نیز دوسری طرف اس اعتماد سے بچیوں کو عفت، پاکدامنی  اور باپردگی  پر تربیت ملتی ہے۔ جبکہ ایسے خاندان جو ہمیشہ مسائل، لڑائی جھگڑوں اور انتشار  میں پنپتے ہیں تو ایسے گھرانے بد کردار لوگوں کے لیے زر خیز زمین ثابت ہوتے ہیں۔

اور اس موضوع میں یہ بھی ہے کہ: بچوں کے چال چلن پر کڑی نظر رکھنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اسے معمولی مت سمجھیں؛ خصوصاً ایسے حالات میں جب بچوں کی جانب سے مشکوک حرکتیں سامنے آئیں۔

کسی کی عزت سے کھیلنے اور دیگر جرائم کا خاتمہ کرنا  معاشرے کے تمام افراد کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ویسے بھی جس شخص کو قرآنی تعلیمات اور ایمانی رہنمائی جرائم سے نہ روکے تو اس وقت حکومت کی جانب سے آہنی ہاتھوں  نمٹنا لازمی ہو جاتا ہے، چنانچہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ : "بیشک اللہ تعالی سلطان  کے ذریعے ایسی حرکتوں کا بھی سد باب فرما دیتا ہے جن کا خاتمہ قرآن کے ذریعے نہیں فرماتا"

یا اللہ! ہم تجھ سے ہر قسم کی خیر کا سوال کرتے ہیں چاہے وہ فوری ملنے والی یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے یا نہیں۔  اور اسی طرح یا اللہ! ہم ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں چاہے وہ فوری آنے والا ہے یا تاخیر سے، ہمیں اس کے بارے میں علم ہے  یا نہیں۔ آمین یا رب العالمین!

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں