جبر و قدر، تقدیر اور لوحِ محفوظ کے سائنسی رخ



کیا انسان اپنے فیصلوں اور عمل میں مکمّل آزاد ہے؟
کیا انسان کے اعمال پہلے سے متعیّن ہیں؟
کیا ہر انسان کے سارے اعمال لوح ِ محفوظ میں پہلے سے لکھے ہوئے ہیں؟
یہ سوال اکثر سوچنے والوں کو بے چین کرتا ہے کہ تقدیر کیا ہے؟ کیونکہ اگر تقدیر تحریر شدہ ہے اور ہر عمل لوح محفوظ میں پہلے سے لکھا ہے تو انسان تو مجبور ِمحض ہوا کہ وہی کرے گا، پھر جزا اور سزا تو بےمعنی ہوئے! سائنس تقدیر کو نہیں مانتی جبکہ یہ عقیدہ مذہب کا ایک اہم جز ہے۔ آئیں اس پر جدید علمی پیش رفت کی روشنی میں غور کرتے ہیں کہ تقدیر کے حوالے سے حقیقت کیا ہوسکتی ہے اور جزا اور سزا کا اسکوپ یعنی دائرۂ کار کیا ہے؟

حقیقت آشنائی کی اساس اگر صرف حواس اور اس کے تجربات ہیں تو جدید سائنس سے زیادہ حقیقت پسند کوئی نہیں لیکن اگر حقیقت آشنائی کی بنیاد عقل ہے تو جدید سائنس ادھوری سچّائی ہے۔ کائنات کی سچّائیاں جاننے کے لیے انسان کو اپنے حواس سے ایک درجہ اوپر ہو کر حقائق کا تجزیہ کرنا ہوتا ہے۔ کسی بھی مظہر کا ٹھوس عقلی جواز ہی اس کی سچّائی کی دلیل ہوتا ہے۔ تقدیر کا تعلّق مستقبل سے ہے یعنی تقدیر وہی جان سکے گا اور لکھ سکے گا جس میں مستقبل میں دیکھنے کی قوّت ہو۔

آزاد ارادہ یا مرضی: Free-Will
جزا اور سزا کی بنیاد عمل پر ہے مگر عمل سے پہلے ارادہ ہوتا ہے، یہ بنیادی عنصر ہے جس پر عمل کی بنیاد پڑتی ہے۔ ہمیں جاننا ہے کہ شعور ,(consciousness) ارادہ (intent)، اور خواہش (desire) کیا ہیں؟ خواہش خیالات  سے ابھرتی ہے یا خیال خواہش سے پیدا ہوتا ہے؟ یہاں مذہب ان تمام کا منبع روح کو بتاتا ہے جبکہ سائنس اس کی نفی کرتی ہے۔ لیکن اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سائنس شعور، ارادہ، خواہش، کو تو جھٹلا نہیں سکتی کہ سائنسدان خود اس کا تجربہ کر تا ہے، اس لیے ان سب کو مائنڈ (mind) کا نام دیا گیا۔ مگر مائنڈ کہاں ہوتا ہے، اس کا بھی سائنس کو نہیں پتہ!

جدید سائنسی اور تحقیقی نظریۂ یہ ہے کہ انسانی خیالات بھی طبعی قوانین کا نتیجہ ہیں، گویا ہم جو کچھ سوچتے ہیں یا جو خیال آتا ہے وہ طبعی یا کیمیائی قوانین کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی کیمیائی عمل خیالات کو جنم دیتے ہیں جو عمل پر منتج ہوتا ہے۔ اب اگر ہمارے خیالات اور اعمال ان معیّن قوانین کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں تو پھر سائنسی سوال یہ ہے کہ ہم اپنے عمل میں کتنا آزاد ہیں؟ اس موضوع پر موجودہ دور کے تسلیم شدہ عظیم سائنسدان اسٹیون ہاکنگ، (ان کے اقوال کا خاص طور پر اس لیے انتخاب کیا گیا ہے کہ یہ ایک مستند ملحد ہیں) اپنی حالیہ کتاب دی گرینڈ ڈیزائن میں لکھتے ہیں کہ:

"یہ تصّور بہت دشوار ہے کہ ہماری مرضی کس طرح آزادنہ طور پر کام کرسکتی ہے جبکہ ہمارے رویّے طبعی قانون سے ہی متعین ہیں۔ گویا بظاہر ہم سب حیاتی روبوٹ سے زیادہ کچھ نہیں، اور آزاد مرضی محض ایک دھوکہ ہے۔"

اسی سائنسداں کی انسانی رویّے کی پیشگوئی سے متعلّق ایک اور تشریح کا مطالعہ کریں جو بذاتِ خود ایک عظیم تر اور ہمارے شعور کی پہنچ سے ماورا سپر سائنس کا بالواسطہ اعتراف ہے۔

" یہ نتیجہ اخذ کرنے کے باوجود کہ انسانی رویّے فطری قوانین کے طابع ہوتے ہیں، یہ بات بھی معقول لگتی ہے کہ اس کو سمجھنے کا عمل اتنا پیچیدہ اور اتنی زیادہ جہتوں پر مشتمل ہوگا کہ کوئی بھی پیشگوئی تقریباً ناممکن ہوگی، اس کے لیے انسانی جسم میں موجود ہزار کھرب کھرب خلیات thousand-trillion-trillion-molecules میں ہر ایک کی ابتدائی کیفیت کی معلومات درکار ہوں گی، پھر اتنی بڑی تعداد کی مساوات equations کو حل کرنے کے لیے چند ارب سال درکار ہوں گے!"

ہمارے موضوع کے حوالے سے جناب اسٹیون ہاکنگ کا یہ اعتراف بہت اہم ہے کہ سائنس اگلے لمحے کی پیشگوئی سے بھی قاصر ہے، لہٰذا اگر کچھ احباب سائنس پر ہی بھروسہ کرتے ہیں اور اسی کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں تو یہ جان لیں کہ اگلے لمحے یا آئندہ کی پیش گوئی سائنس کے نزدیک ایک ناممکن کام ہے۔ اب دوسری طرف آسمانی کتاب، خالق کائنات کے پیغمبران اور ولی اللہ کی پیشگوئیوں پر غور کریں۔ یہ تو سامنے کی حقیقت ہے جو کتابوں اور اب انٹرنیٹ پر بکھری ہوئی ہیں، جس میں مستقبل قریب کے بلکہ ہزار سال آگے کے واقعات کے اشارے دیے گئے جو درست ثابت ہوتے چلے آ رہے ہیں، کہ جس کی گواہی تاریخ کے صفحات بھی دے رہے ہیں۔ اُس علم کی قوّت اور وسعت کا ادراک انسان تو نہیں کر سکتا، جس نے ڈیڑھ ہزار سال آگے کی پیشگوئی کردی۔ وہ علم کیا ہوگا؟ اس علم کی قوّت کیا ہوگی؟ کیا سائنس اس علم کے پیرایوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جبر و قدر اور تقدیر کا سائنس سے کوئی تعلّق نہیں کیونکہ یہ سائنس کی فیلڈ نہیں ہے، لیکن مذہب اس بارے میں دعویٰ کرتا ہے کہ نہ صرف انسان کی تقدیر بلکہ کائنات کے رموز بھی تحریر شدہ ہیں۔گویا تقدیر تو ہمارا آئندہ کل ہے، ایک انجانا مستقبل۔ لیکن ہمارا دین اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ یہ انجانا صرف انسان کے لیے ہے، انسان کے خالق کے لیے نہیں۔ بس یہیں پر آ کر کچھ احباب کنفیوز ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو بےبس سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم کر رہے ہیں، وہ ایک جبر ہے کیونکہ ہم پہلے سے متعیّن کیے اور لکھے ہوئے پر عمل کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا یہ گمان صحیح ہے؟

اس سلسلے میں ایک واقعہ کا تذکرہ اہم ہے جس کے مطابق کچھ ایسا ہوا کہ ایک یہودی ایک کٹورے میں پانی لیکر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح پوچھتا ہے کہ اے محمّد صلی اللہ علیہ وسلم بتائیے کہ میری تقدیر میں کیا ہے؟ میں یہ پانی پیوں گا یا پھینک دوں گا؟ اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ تو پانی پیے گا تو وہ پھینک دیتا یا اس کے معکوس، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو تو کرے، وہ تیری تقدیر! بس یہی نکتہ سمجھنے کا ہے۔

...................................................................................................

یہ جملہ ہم اکثر سنتے ہیں کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ تو ہونا ہے۔ قسمت کے متعلّق دھندلے عقائد کی وجہ سے اکثر لوگ کوشش نہیں کرتے بلکہ سب قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جو لکھا ہے وہ ہوجائے گا۔ اس سوچ نے نقصان پہنچا کر اکثر مسلمانوں کو بےعمل بنایا۔ ہمارا مشیّت یعنی اللہ کی مرضی کا تصور ابہام لیے ہوئے ہے۔ اللہ ہر وقت ہمارے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا بلکہ اپنی مشیّت کو ایک مربوط پروگرام کی شکل دیکر لوح میں محفوظ فرما دیا۔ اب سب کچھ انھی قوانین کے تحت ہی ہونا ہے بلکہ ہوتا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے، بےشک اللہ کی مشیّت ہے لیکن اس مشیّت کا حصول ہمارے ارادے اور عمل سے منسلک ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے والوں کے لیے اس دنیا میں کچھ نہیں، خواہ وہ کتنا اچھا مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اس دنیا کی تخلیق اور انسان کی نیابت کا منطقی مطلب حصول ِعلم اور عمل ہے۔

کسی فرد کے ساتھ ہونے والے غم و اندوہ اور ناگہانی حالات پر یہ کہا جانا کہ یہ قسمت میں لکھا تھا، یا یہی مشیّت الٰہی تھی، یا اس میں کوئی بہتری ہوگی، effective-theory کے بموجب ہی درست ہے کیونکہ ہمارا علم ان واقعات کی اصل وجہ جاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ ہاں، مگر یہ ایک مؤثر نفسیاتی سیفٹی والو ضرور بنتا ہے، جو ایک انسان کے اندر کے جذباتی تلاطم، مایوسی اور بے چینی کے غبار کو خارج کر دیتا ہے۔ لیکن اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ ہم اللہ سے نیک گمان ہو جاتے ہیں اور اللہ اپنے فرمان کے بموجب حالات کو بدلنے کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اس کا یہ فرمان یاد کریں جو کچھ ایسا ہے کہ: میرا سلوک بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں