حج کا سفر۔۔۔ ابلیس سے جنگ کی روداد ۔۔۔ حصہ- آخر

حج کا سفر۔۔۔۔ ابلیس سے جنگ کی روداد
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ آخر
(سفرِ مدینہ)

مدینے کا سفر

سات دسمبر کو مدینے کی جانب روانہ ہوئے۔موسم بہت اچھا تھا۔ مکہ کے کالے پہاڑوں کے برعکس راستے کے پہاڑ سرخی مائل تھے۔ راستے میں ظہر اور عصر کی نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ جب مغرب کا وقت آیا تو ایک جگہ گاڑی رکوائی۔ جب باہر نکلے تو مزاج ٹھکانے آگئے۔ یہاں اچھی خاصی سردی تھی جبکہ مکہ کا موسم معتدل تھا۔ بالآخر ۴۵۰ کلومیٹر کا سفر طے کرکے نو گھنٹے میں مدینے پہنچے ۔ہمارا ہوٹل انوارلامل مسجد نبوی کے نہایت نزدیک تھا۔ مسجد کے مینار نہایت نزدیک تھے اور انتہائی خوبصورت لگ رہے تھے۔ اس مرتبہ میرے کمرے میں یاسر اور فرخ مقیم تھے۔ وہاں اس وقت اچھی خاصی سردی تھی۔

اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے ۔ میرے ساتھی دوسرے دن مسجد جانا چاہتے تھے لیکن میں اسی وقت جانے پر مصر تھا ۔چنانچہ میں نے غسل کرکے نئے کپڑے پہنے۔ پھر اپنے لئے اور بیگم کے لئے شوارما لیا ۔ کھانا کھانے کے بعد میں یاسر اور عابد کے ساتھ حرم کی جانب چلا۔ میری عجیب سی کیفیت تھی۔ میں اس ہستی کے حرم میں قدم رکھنے جارہاتھا جو افضل البشر تھے ۔ جن کے منہ کا ایک ایک لفظ قانون، قابل اتباع اور جن کی ایک ایک ادا قابل تقلید تھی۔

میرے قدم مسجد کی جانب بڑھتے رہے اور میرا اشتیاق بڑھتا گیا۔ اب سبز گنبد بھی دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں تک کہ مسجدکی حدود میں داخل ہوا اور باب السلام کی طرف سے اندر چلا گیا۔ روضہ رسول پر ایک لمبی لائین لگی ہوئی تھی اور لوگ آہستہ آہستہ روضے کی جانب سرک رہے تھے۔ سب سے پہلے ایک جالی آئی اور میں سمجھا کہ یہی روضہ رسول ہے۔ لیکن پھر علم ہوا کہ روضہ اگلی جالی پر ہے۔چنانچہ وہاں پہنچا تو مواجہ شریف نظر آیا۔ اندر تاریکی تھی اور ایک سبز رنگ کی قنات نے روضہ مبارک کو دھکا ہوا تھا ۔رافع نے بتایا تھا کہ جالی کے درمیانے سوراخ کی سیدھ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ہے۔ چنانچہ جب وہاں پہنچا تو ادب سے نظریں جھکالیں اور اپنا سلام پیش کیا۔ وہاں شرطے کھڑے ہوئے تھے جو انتہائی نرم اور آہستہ لہجے میں لوگوں کو آگے کررہے تھے اور انہیں قبر کی جانب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے روک رہے تھے۔ آگے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کہ کی قبریں تھیں۔انہیں بھی سلام کیا اور پھر باب بقیع سے واپس آگیا۔

سردی ہونے کی بنا پر یہاں رش کم تھا اور ریاض الجنۃ بھی خالی تھا۔ ریاض الجنۃ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنت کے باغوں کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس جگہ پر ہلکے گرین کلر کے قالین بچھے ہوئے تھے۔ وہاں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تہجد کی نماز ادا کی۔ اس کے بعد منبر رسول دیکھا۔ روضے کے پیچھے اصحاب صفہ کا چبوترہ تھا جو اندازے کے مطابق ۱۲ اسکوائر فٹ کا تھا۔ اس کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد پڑھنے کی جگہ تھی۔ریاض الجنۃ کے آس پاس چھ اہم ستون بھی تھے جنکی اپنی تاریخی حیثیت تھی۔ ایک ستون اسطوانہ حنانہ تھا جو وہ کھجو ر کا تنا تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ ایک ستون حرس کے نام سے تھا جہاں صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے بیٹھتے تھے۔ ایک ستون ستون وفود تھا جہاں آپ وفود اور دیگر مسلمانوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ایک اور ستون ابی لبابہ کے نام سے منسوب تھا۔ یہ ایک صحابی تھے جنہوں نے ایک غلطی ہونے پر اپنے آپ کو اس ستون سے باندھ لیا تھا ۔ایک ستون سریر تھا جہاں آپ اعتکاف کے لئے تشریف فرما ہوتے تھے۔ ایک اور ستون ستون جبریل تھا جو روضہ کے اندر تھا۔ ایک آخری ستون ستون عائشہ کے نام سے منسوب تھا جس کے بارے میں چند ضعیف روایات میں آیا ہے کہ یہاں نماز پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب ہے۔روضے رسول کے بائیں جانب حضرت فاطمہ کا حجرہ تھا جہاں ایک کنڈی لگی ہوئی تھی۔ شیعہ حضرات یہاں رکنے کی کوشش کررہے تھے جبکہ شرطے انہیں وہاں سے ہٹا رہے تھے۔

واپس آکر میں سوگیا اور جب دوبارہ فجر کی نماز پڑھنے مسجد نبوی گیا تو پتا چلا کہ خاصی سردی ہے۔ دن میں مدینہ غور سے دیکھا تو علم ہوا کہ یہاں کافی صفائی ستھرائی ہے۔ ہمارے ہوٹل اور مسجد کے درمیان ایک بازار تھا۔ یہاں کے شرطے مکہ کے مقابلے میں خاصے شائستہ اور نرم مزاج تھے۔ شام کو عصر کے بعد جنت البقیع گیا۔ وہاں جابجا قبریں تھیں لیکن کسی قبر کی نشاندہی ممکن نہ تھی کہ یہ کس کی قبر ہے۔ ایک قبر خاصی بڑی تھی اور وہاں شرطے کافی تعداد میں موجود تھے۔ پتا چلا یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی قبر تھی۔ کچھ حضرات وہاں ہاتھوں میں نقشے لے کر قبروں کے تعین میں مصروف تھے۔ جبکہ وہاں شرطے لوگوں کو شرک و بدعت سے دور رہنے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے منع کررہے تھے۔

مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کے بارے میں امت میں دو طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ آپ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور ہر جگہ حاضرو ناظر ہیں۔ آپ لوگوں کی باتیں سنتے اور اللہ کے حکم سے ان کی مشکلات کو حل کرتے ہیں۔ایک دوسرا طبقہ اس بات کا تو انکاری ہے کہ آپ ہر جگہ حاضرو ناظر ہیں لیکن وہ آپ کی زندگی کا قائل ہے اور اس بات کا بھی قائل ہے کہ آپ سے بات چیت کی جاسکتی اور مخصوص مراقبوں اور عملیات کے ذریعے آپ سے راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک تیسرا طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوچکا اور آپ کا رابطہ اس دنیا سے منقطع ہوچکا ہے۔ البتہ آپ کی زندگی عالم برزخ میں جاری ہے جہاں آ پ کے سامنے درود پیش کیا جاتا اور آپ کو رزق پہنچایا جاتا ہے۔

یہ تیسرا طبقہ اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلیل دیتا ہے کہ اگر اللہ کے رسول اس دنیا میں زندہ ہوتے اور ان سے رابطہ قائم کرکے راہنمائی طلب کی جاسکتی تو کیوں ایسا نہ ہوا کہ حضرت علی اور حضرت عائشہ کی جنگ میں صحابہ جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرلیتے کہ کون حق پر ہے؟ کیوں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کا سراغ لگانے کے لئے صحابہ نے آپ سے رجوع نہ کیا؟ کیوں حضرت معاویہ و حضرت علی کے قضئے کا فیصلہ آپ نے نہیں فرمایا؟وغیرہ۔ دوسری جانب وہ لوگ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا کی حیات کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو ، وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں شعور نہیں۔ بہر حال ہر گروہ کے اپنے دلائل ہیں۔

اصولی بات یہی ہے کہ غلو سے بچنا چاہئے۔ حیات النبی کے منکرین بعض اوقات افراط کا شکار ہوکر بے ادبی کا اظہار کرتے، آپ کے روضہ مبارک کی تحقیر کرتے اور اخلاقیات سے پستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب حیات النبی کے قائلین میں سے کچھ لوگ غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے مانگنے لگ جاتے یا براہِ راست انہیں مخاطب کرتے ہیں۔ اس غلو کی بنیاد پردونوں ہی رویے قابل مذمت ہیں۔

مدینے کی تاریخ
ایک دن ہم زیارتوں پر گئے۔ مکہ کے مقابلے میں مدینے میں مقدس مقامات کی نوعیت مختلف ہے۔ مدینے کا قدیم نام یثرب ہے۔ مدینے کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا ذکر ۶ قبل مسیح کے لٹریچر میں ملتا ہے۔ یثرب کی تاریخ کا آغاز دوسری عیسوی میں ہوتا ہے جب یہودیوں کے تین قبیلے رومیوں سے جنگ کے نتیجے میں یہاں پناہ گزین ہوئے۔ یہ تین قبیلے بنو قینوقع، بنو قریظہ اور بنو نظیر تھے۔ ابتدا میں یہی تین قبیلے یثرب کے کرتا دھرتا تھے لیکن بعد میں صورت حال تبدیل ہوگئی۔یمن سے دو عرب قبائل بنو اوس اور بنو خزرج ہجرت کرکے آئے اور ابتدا میں تو یہودیوں کے باجگزار بن کر رہے لیکن بعد میں ان کے تغلب سے آزادی حاصل کرکے آزاد رہنے لگے۔ بعد میں بنو اوس اور بنو خزرج ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل ان میں دونوں میں شدید جنگ ہوئی جسے جنگ بعاث کہا جاتا ہے۔

جنگ کے بعد جب مدینے کے لوگ حج کرنے گئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے متاثر ہوئے اور کچھ عرصے بعد انہوں نے سمع و طاعت کی بیعت کی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ وسلم نے حضرت معصب بن عمیر کو مدینے روانہ کیا تاکہ وہ لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرسکیں۔ پہلی ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یثرب تشریف لائے اور یہاں آپ کو ایک حکمران کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ۔آپ کی آمد کے بعد یثرب مدینۃ النبی یعنی نبی کا شہر کہلانے لگا اور بعد میں اس کا نام مدینہ ہی پڑ گیا۔

مسجد نبوی
جب نبی کریم اللہ علیہ وسلم نے مدینے ہجرت کی تو مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کی تعمیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ بنفس نفیس موجود تھے۔ ۔مسجد کی دیواریں پتھر اور اینٹوں سے جبکہ چھت درخت کی لکڑیوں سے بنائی گئی تھی ۔مسجد سے ملحق کمرے بھی بنائے گئے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج اور بعض اصحاب رضی اللہ تعالٰی عنہم کے لئے مخصوص تھے ۔ انہی کمروں میں ایک حجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی تھا اور آج اسی کمرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک موجود ہے ۔

مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنا عام مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار گنا افضل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی حاضری ایک شرف کی بات ہے کہ یہاں خدا کا آخری اور عظیم ترین پیغمبر محوِ استراحت ہے۔ چنانچہ مسجدِ نبوی میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی زیارت کریں، ان پر سلام پیش کریں، انکے درجات کی بلندی کے لئے اللہ سے دعا کریں۔ انکے اصحاب پر بھی سلام بھیجیں۔ مسجد کے درو دیوار سے انس و محبت کا اظہار کریں، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر، انکے حجرے، انکی تہجد پڑھنے کی جگہ ، اورریا ض الجنۃ کی زیارت کریں اور کثرت سے نوافل اور درود پڑھیں ۔

مدینے کی زیارت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کو اسی طرح حرم ٹہرایا ہے جس طرح مکہ کو سیدنا ابرہیم علیہ السلام نے۔ چنانچہ یہاں بھی کسی جاندار کو مارنا، لڑائی جھگڑا کرنا اور ایذا رسانی اسی طرح ممنوع ہے جیسے مکہ میں۔

ایک دن ہم مدینے کے سفر پر پر نکلے۔ اس مرتبہ گائیڈ زیادہ معلومات رکھتا تھا۔ سب سے پہلے احد پہاڑ پر پہنچے۔ یہ ایک اونچا سا پہاڑ تھا۔ اس کے سامنے وہی چٹان تھی جس پر آپ نے کچھ فوجیوں کو تعین کرکے جگہ نہ چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن آپ کی ہدایت پر عمل نہ کرنے کی بنا پر مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بعد میں یہ شکست فتح میں بدل گئی اور کفار کے لشکر کو دم دبا کے بھاگنا پڑا۔یہ پہاڑ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبو ب تھا کیونکہ اسی کے دامن میں آپ نے پناہ لی تھی۔ یہاں شہدا کی قبریں بھی تھیں جن میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر سب سے نمایاں تھی۔

یہاں مسجد ذوقبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد بھی دیکھی۔ اسلام کی ابتدا میں جب نماز کا حکم آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈائریکشن میں نماز پڑھتے تھے کہ سامنے کعبہ ہوتا اور اس کی سیدھ میں بیت المقدس بھی ہوتا تھا۔ یہ ڈائریکشن حجر اسود والی سمت تھی۔ لیکن جب آپ مدینے تشریف فرما ہوئے تو کعبہ اور بیت المقدس دونوں مخالف سمت میں تھے اور دونوں کی جانب بیک وقت رخ کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ آپ بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے رہے لیکن آپ کی شدید خواہش تھی کہ بیت اللہ ہی کو قبلہ قرار دے دیا جائے۔ چنانچہ ایک دن آپ مدینے کے مضافاتی علاقے میں ایک صحابی کی عیادت کے لئے ان کے گھر تشریف لائے۔ وہیں عصر کا وقت شروع ہوگیا اور آپ نے نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز کی حالت میں تھے تو وہیں قبلے کی تبدیلی کا حکم آگیا اور آپ نے حالت نماز ہی میں قبلہ تبدیل کیا۔ اس جگہ پر ایک مسجد بعد میں تعمیر کردی گئی اور چونکہ یہ وہ واحد مسجد ہیں جہاں ایک ہی نماز دو قبلوں کو سامنے کرکے پڑھی گئی اس لئے اس کا نام مسجد ذوقبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد پڑ گیا۔

یہاں پر مسجد قبا بھی دیکھی جس کو اسلام کی پہلی مسجد کا شرف حاصل ہے ۔ میں وہاں دو ررکعت نفل پڑھنے ہی لگا تھا کہ اچانک ریحان نے مجھے روک دیا۔ پھر وہ مجھے ایک گنبد کے نیچے لے گیا اور کہا کہ یہاں نماز پڑھو۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے تشریف لانے کے بعد پڑاؤ ڈالا تھا اور اونٹنی باندھی تھی۔راستے میں حضرت عثمان کا کنواں اور دیگر اہم مقامات بھی دیکھے ۔ یہاں تک کہ ظہر کی نماز پر ہم واپس آگئے۔

مدینے میں قیام کے دوران ایک نمائش بھی دیکھی جو مسجد سے متصل عمارت میں تھی۔ اس میں مقدس مقامات کے ماڈل، تصاویر، نقشے اور تاریخی تفصیلات تھیں۔ سب سے اچھا ماڈل مسجد نبوی کا تھا جس میں بڑی خوبصورتی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور مسجد کو نمایاں کیا گیا تھا۔

مدینے کے معمولات
مدینے میں ہمارا قیام ۸ دنوں کا تھا۔ اس کی وجہ ایک ضعیف روایت تھی جس میں مسجد نبوی میں چالیس نمازیں پوری کرنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ مدینے میں چونکہ طواف ممکن نہ تھا اس لئے دن میں فراغت ہی ہوتی۔ بس مسجد نبوی جاکر نمازیں پڑھتا، عصر کے بعد مسجد کی لائبریری میں جاکر مطالعہ کرتا، کبھی کبھی جنت البقیع چلا جاتا اور آدھی رات کو روضہ رسول پر حاضری دیتا، ریاض الجنہ میں نوافل پڑھتا اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد کی نماز پڑھنے کی جگہ پر تہجد کی نماز ادا کرتا تھا۔ وہاں تینوں وقت کا کھانا لدھیانوی ٹریلورز کی جانب سے ملتا تھا۔

آخری دن
آج مدینے میں آخری رات تھی۔ اگلے دن عشا ء کے بعد کوچ کرجانا تھا۔ میرا یہ معمول تھا کہ رات کو تہجد پڑھنے آدھی رات کو مسجد ضرور جاتا چنانچہ اس رات اہتمام سے مسجد جانا چاہتا تھا تاکہ آخری حاضری کو یادگار بناسکوں۔سوئے اتفاق کہ رات کو آنکھ نہیں کھلی اور میری نماز رہ گئی ۔ اس کا مجھے انتہائی افسوس ہوا ۔ البتہ رات کو عشا ء کے بعد میں نے روزہ رسول پر حاضری دی اور تہجد جلد پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ رکعتیں پڑھنے کے بعد میں نے ریاض الجنہ کا قصد کیا لیکن وہاں بہت رش تھا اور جگہ ملنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ اچانک میں نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی کہ یا اللہ مجھے ریاض الجنہ میں جگہ دلوادے۔ اسی اثنا میں میں نے دیکھا کہ ایک شخص سلام پھیر کر بیٹھا ہے۔ میں نے اس سے درخواست کی تو اس نے اسے قبول کرلیا اور جگہ چھوڑ دی۔ یوں اللہ نے میری آخری خواہش بھی پوری کردی۔ جب ہوٹل پہنچا تو بیگم دیر سے پہنچنے پر انتہائی پریشان تھی ۔وہاں البیک کھایا جوا س سے قبل مکہ اور جدہ میں بھی کھا چکا تھا۔

رات کو آخری مرتبہ مسجد کے میناروں کو دیکھا اور بس میں بیٹھ گئے۔ آخری مرتبہ بھیگی ہوئی آنکھوں سے نبی کے شہر کو دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں کیونکہ اب دیکھنے کو بچا ہی کیا تھا۔ آگے وہی مادی تہذیب کے نمائندہ شہر تھے جو روحانیت سے خالی تھے۔اب روحانیت کے لئے یہیں واپس آنا تھا اور نہ جانے کب یہ موقع دوبارہ ملے۔

واپسی
بالآخر دوبارہ جدہ کے لئے رخت سفر باندھا۔ جدہ ائیر پورٹ پر ہم صبح ہی کو پہنچ گئے اور یہاں فجر کی نماز ادا کی۔ فلائٹ میں کافی دیر تھی اور ہمیں شام چار بجے تک انتظار کرنا تھا۔ وقت کاٹنا ایک مشکل کام تھا چنانچہ گروپ کے لوگ ادھر ادھر بکھر گئے اور ماحول کا جائزہ لینے لگے۔ گروپ لیڈر رافع سب سے اپنی سروسز کے بارے میں دریافت کررہے تھے ۔ ہم سب نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا۔ بالآخر فلائیٹ کا وقت آگیا اور ہم ایک مرتبہ پھر جہاز پر سوار ہوگئے۔ جہاز کی کھڑکیوں سے میں نے حرم کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ اب بہت دور ہوچکا تھا ۔ لیکن جب دل کی دنیا میں جھانک کردیکھا تو چار سو حرم ہی دکھائی دیا۔وہاں مسجدالحرام کے مینار اسی طرح روشن تھے، کعبہ کا غلاف وہی دعوت نظر دے رہا تھا، لوگ اسی طرح دیوانہ وار ملتزم سے چمٹے ہوئے تھے، حجر اسود کو بوسہ دے رہے تھے، صفا و مروہ پر دوڑ رہے تھے ۔ ان مناظر کو یاد کرکے بے اختیار آنسو نکل گئے یہ آنسو جدائی کے بھی تھے اور تشکر کے بھی۔ جسمانی طور پر تو حرم دور ہوگیا تھا لیکن روحانی طور پر وہ میری یادوں میں بسا ہوا تھا۔ اب یہی من کی دنیا تھی جس کے سہارے حرم سے رابطہ قائم رکھنا تھا۔

من کی دنیا من کی دنیا سوزو مستی جذب و شوق
تن کی دنیا تن کی دنیا، سودو سودا مکرو فن

ختم شد---

اللھم ارزقنا حج بیتک الحرام (آمین!!)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں