ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ- 13

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-13

مزدلفہ میں زندگی موت کی کشمکش
اب اگلی منزل مزدلفہ کا میدان تھا۔ یہاں سے ہمارا قافلہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ ایک وہ لوگ جو تھے جو بس میں جارہےتھے اور دوسرے وہ لوگ تھے جو پیدل روانہ ہورہے تھے۔ میں بھی پیدل مسافرین میں تھا کیونکہ سنا تھا کہ بس کافی دور اتارتی ہے اور اس میں خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ ہمارا قافلہ ۳۵ افراد پر مشتمل تھا ۔ یہاں سے ہمیں قریب پانچ کلو میٹر کا سفر طے کرنا تھا۔ ہمارا خیمہ ایکسٹنڈڈ منیٰ یعنی مزدلفہ ہی میں تھا چنانچہ ہمیں وہیں پہنچنا تھا۔

جب میں عرفات سے نکل رہا تھا تو دل میں خیال آیا کہ لوگ بلاوجہ حج سے ڈراتے تھے کہ یہاں بہت رش ہوتا ہے بالخصوص عرفات سے مزدلفہ جاتے وقت بڑا رش ہوتا ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا کچھ بھی ابھی تک دکھائی نہیں دیا تھا۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا اور اگلے مرحلے میں وہ سب کچھ نظر آگیا جس کا لوگ ذکر کرتے تھے۔

ہمارا قافلہ مولانا یحییٰ کی سربراہی میں مزدلفہ کی جانب رواں دواں تھا۔ ایک جم غفیر طریق المشا یعنی پیدل چلنے والوں کے راستے پر رواں دواں تھا۔ ہم نے رش سے بچنے کے لئے بائیں جانب کا راستہ لیا جہاں مسجد نمرہ کا بھی قریب سے دیدار کیا۔ راستے میں آدھے گھنٹے کے لئے رکے تاکہ تازہ دم ہولیں۔ پھر دوبارہ سفر شروع کیا۔ ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں اور ایک چھ ماہ کی بچی بھی تھی جس کو پرام میں ڈال کر اس کے والدین گھسیٹ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک وہیل چئیر بھی تھی جس پر ایک بزرگ کو بٹھا یا ہوا تھا اور نوجوان باری باری انہیں دھکیل رہے تھے۔

اب تک سب کچھ ٹھیک تھا۔لیکن جونہی مزدلفہ کی حدود میں داخل ہوئے تو نقشہ ہی بدل گیا۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد راستے ہی میں لیٹی ہوئی تھی جس کی بنا پر پیدل چلنے والوں کو راستہ ملنا مشکل تھا۔ آگے راستہ تنگ ہوتا جارہا تھا۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہوا کہ گروپ کے نوجوانوں نے خواتین اور بچوں کو محفوظ کرنے کے لئے ہاتھوں کا ایک حصار بنالیا جو ایک غلط طرز عمل تھا کیونکہ اس سے راستہ مزید تنگ ہورہا تھا۔ ہمارے لیڈر صاحب جو جھنڈا لے کر آگے جارہے تھے وہ بار بار گروپ سے آگے نکل جاتے تھے اور ان کو روکنا پڑتا تھا۔ سامنے ایک بس کھڑی تھی جس کی بنا پر راستہ مزید تنگ ہوگیا تھا۔ آگے رش بڑھتا گیا یہاں تک کہ بوٹل نیک کی صورت حال پیدا ہوگئی اور دم گھٹنے لگا۔ جب ہم کھڑی ہوئی بس کے نزدیک آئے تو انتہا ہوگئی اور سامنے ایک ریلے سے مڈبھیڑ ہوگئی اور میں گرتے گرتے بچا۔ دم گھٹنے لگا اور خاص طور پر عورتیں اور بچے بلبلا اٹھے۔

مجھے یوں لگا کہ شاید یہ ہمارا آخری سفر ہو ۔ آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف لوگوں کا اژدہام تھا اور کہیں کوئی فرار کی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ بس ایسے میں خدا ہی سہارا تھا جس کی راہ میں ہم نے یہ سفر شروع کیا تھا۔ کچھ دیر بعد تھوڑی کشادگی ملی تو علم ہوا کہ بچے کی پرام ٹوٹ چکی ہے۔ پھر ہم سب نے اپنے بوجھ ہلکے کرنا شروع کئے اور میں نے بھی ایک تھیلا جس میں جائے نماز اور چٹائی تھی وہ پھینک دیا۔کچھ دور اور آگے بڑھے تو اللہ نے معاملہ آسان کردیا اور کشادگی میسر آگئی۔

اس گھمسان میں ہم سمت بھول چکے تھے کہ ہمارا خیمہ کدھر ہے ۔ بس ناک کی سیدھ میں چلتے رہے۔ یہاں تک کہ منیٰ کے خیمے دکھائی دینے لگے۔ کچھ جان میں جان آئی۔ عرفات سے مسلسل چلتے ہوئے پانچ گھنٹے ہوچکے تھے اور اقدام شل ہوگئے تھے۔ بہرحال منیٰ کے خیمے نزدیک آتے گئے۔یہاں تک کہ ایک ٹیلے کو کراس کرکے ہم پہاڑ پر چڑھ گئے اس وقت ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ گویا یہ زندگی اور موت کا سفر ساڑھے چھ گھنٹوں میں اختتام پذیر ہوا۔

یہ تو پیدل چلنے والوں کا حال تھا۔ جو لوگ بس میں آرہے تھے انکی حالت ہم سے بھی ابتر تھی۔ بس نے انہیں نامعلوم مقام پر اتاردیا تھا جہاں سے خیمے تک کا راستہ ٹیڑھا میڑھا تھا۔ لہٰذا اکثر لوگ بھٹک کر ادھر ادھر نکل کھڑے ہوئے اور جس کا جدھر سینگ سمایا نکل کھڑا ہوا۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ تو فجر کے بعد منزل تک پہنچے۔

شیطانی و رحمانی لشکر کی روداد
رات کو مغرب اور عشاء ملا کر ادا کی اور پھر سونے کے لیے لیٹ گئے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات عبادت نہیں کی تھی حالانکہ تہجد بھی جو آپ کا معمول تھا وہ نہیں پڑھی تھی۔ میں جب نیند کے عالم میں گیا تو شیاطین کے کے کیمپ تصور میں آنے لگے۔وہاں ابتری پھیل چکی تھی۔ اہل ایمان میں سے جو چنے ہوئے لوگ تھے انہوں نے تو اللہ سے اپنے عہد کی تجدید کرلی تھی، اپنے نفس کی کڑی دھوپ میں کھڑے رہنے کی تربیت کی، بھوک کو برداشت کیا، جنسی تقاضوں کو تھام کررکھا اور دنیا و آخرت میں کامیابی کی دعا کی۔ وہاں انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ اورآئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرلیا تھا۔ اب وہ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو دور کرکے اگلے مورچے پر طاغوت کو شکست دینے کے لئے تیار تھے۔ گویا انہوں نےخدا کی مدد سے عرفات کا میدان مار لیا تھا۔ اب انہوں نے خیمے چھوڑ دیے تھے اور کھلے آسمان تلے فیصلہ کن معرکے کے لئے تازہ دم ہورہے تھے۔ دوسری جانب کمزور مسلمان بھی ان چنے ہوئے لوگوں کی معیت میں تھے اور انہوں نے بھی حتی المقدور ان کی تقلید کی کوشش کی اور خدا کی رضا کی اپنے تئیں پوری کوشش کرڈالی۔ لیکن آ ج خدا کی رحمتوں کے نزول کا وقت تھا او ر یہ رحمتیں کمزو ر وطاقتو ر ہر طرح کے مسلمان کے لیے نازل ہورہی تھیں اور ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق ان سے فیض یاب ہورہا تھا۔

ادھر شیطانی کیمپوں کی حالت ابتر تھی۔ آسمانی فرشتوں نے شیاطین کا ناطقہ بند کردیا تھا اور وہ ان پر تازیانے برسا رہے تھے۔ چنانچہ طاغوتی کیمپ میں ایک صف ماتم بچھی تھی۔ کوئی اپنے زخموں کو سہلا رہا تھا تو کوئی اپنا خون چاٹ رہا تھا۔ وہاں کے ہر ابلیس پر ایک مایوسی اور افسردگی طاری تھی۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ اہل ایمان کے لشکر کو اگلے مورچے تک جانے سے روکا جائے لیکن اب انہیں کوئی نہیں روک سکتا تھا کیونکہ خدا ان کے ساتھ تھا۔ اب بس سورج نکلنے کی دیر تھی کہ شیطا ن پر سنگ باری شروع ہوجانی تھی۔

سنگ باری
صبح ہم نے فجر کی نماز پڑھی۔ کچھ دیر وقوف کیا اور پھر سوگئے اور دس بجے اٹھے۔ اتنا پیدل چلنے کے بعد عام حالات میں تو شاید اسپتال جانا پڑتا لیکن اللہ کے کرم سے تھکن دور ہوچکی تھی۔ اگلا معرکہ رمی کرنے کا تھا یعنی شیطان کو کنکریاں مارنا۔ بچپن سے میں یہ قصے سنتے آرہا تھا کہ رمی میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور کئی لوگ کچل کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ کئی سال پہلے بھی یہ واقعہ ہوچکا تھا۔ ایک بڑا سانحہ ۲۰۰۵ میں شاید پیش آیا تھا جس میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ایک صاحب جنہوں نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا وہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ وہ بتانے لگے کہ کس طرح لاشیں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں اور کمانڈوز آگئے تھے۔ یہ سب سن کر عجیب سا خوف پیدا ہورہا تھا اور واقعی یہ لگ رہا تھا کہ ہم شیطان کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں۔ کچھ لوگ پہلے ہی رمی کے لئے نکل چکے تھےاور ہمیں رافع کے ساتھ ایک بجے روانہ ہونا تھا۔ ابھی ہم نے ظہر کی نماز پڑھی ہی تھی کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔ رافع نے بتایا کہ بارش کی صورت میں رمی انتہائی دشوار ہوجاتی ہے اور حادثے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بہر حال خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے شیطان پر سنگباری تو کرنی ہی تھی۔

تقریباً ایک بجے ایک مرتبہ پھر ہمارا قافلہ لدھیانوی ٹریولرز کے جھنڈے تلے نکلا۔ اس مرتبہ ہمارے ساتھ تیس افراد موجود تھے۔میں نے چونکہ جمرات دیکھا ہوا تھا اس لئے رافع سےاکیلے جانے کی اجازت لی تاکہ جلد جمرات تک پہنچ سکوں۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ چنانچہ میں اپنی بیوی کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔

شیطان کی شکست
ایک بار پھر مرتبہ لبیک کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ چاروں طرف کفن پوش سرفروشان اسلام شیطان کی ناک رگڑنے کے لئے چل رہے تھے۔ قافلہ دھیمے دھیمے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس رحمانی لشکر کے جوش کے باوجود ابلیسی افواج کے ہرکارے مسلمانوں پر حملہ کرنے سے باز نہیں آرہے تھے۔ چنانچہ ان کی کوشش تھی کہ مختلف رنگ و نسل کے مسلمانوں میں فساد پیدا کردیں، وہ انہیں نظم و ضبط کی خلاف ورزی کروا کر بھگدڑ مچوادیں، انہیں دنیاوی باتوں میں مشغول کریں، انہیں آنکھوں کے زنا میں مبتلا کردیں ، وہ اپنی زبان سے لوگوں کی غیبت کریں، وہ دوسری قوم کے لوگوں کے بارے میں بدگمانی کریں، وہ کالوں کو دیکھ کر ان کو حقیر سمجھیں اور سب سے بڑھ کر حج کے فلسفے سے غافل ہوکر اسے ایک رسم کے طور پر ادا کریں۔

لیکن شیطان کے وسوسوں، ڈراووں ، لالچوں کے باوجود حجاج اس مقام تک پہنچ چکے تھے۔ وہ خدا کے حکم کے مطابق پچھلے تمام محاذوں پر شیطان کو شکست دیتے چلے آئے تھے اب یہ مرحلہ بھی آہی گیا تھا۔ یہاں بھی ان کا ہتھیار توکل تھا۔ انہیں خدا کی مدد پر بھروسہ تھا ۔ میں نے تصور میں شیطانی لشکر کو دیکھا تو وہ بزدلوں کی طرح پسپائی رہا تھا۔ پچھلے مورچوں پر شکست کھانے کے بعد شیطان اور اس کے پہلے ہی حواری بدحواس ہوچکے تھے۔

لیکن اہل ایمان پر خدا کی رحمتوں کا خاص نزول تھا۔ اس کے فرشتے شیاطین کو دھتکار رہے تھے اور اہل ایمان کی کمزوریوں کے باوجود ان کی معاونت کررہے تھے۔اہل ایمان کا لشکر شیاطین کو آہستہ آہستہ پیچھے دھکیل رہا تھا۔ لبیک کی صدائیں ان طاغوتی قوتوں کے دل چیر رہی تھیں ۔
شیطان کی کوشش تھی کسی طرح اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے حوصلے بلند کرے لیکن اب دیر ہوچکی تھی اور معاملات ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ شیطان ایک بار پھر بھول گیا تھا کہ اس کا مقابلہ ان نہتے انسانوں سے نہیں بلکہ تنہا خدا سے ہے جس کے قبضے میں تمام طاقتیں ہیں۔ان سب برائیوں کا منبع بڑا شیطان ہی تھا چنانچہ اہل ایمان کا پہلا نشانہ یہی بڑا شیطان تھا۔ اگر اس کی ناک رگڑ دی جائے تو باقی چھوٹے شیاطین خود ہی دبک کر بیٹھ جائیں گے۔

بڑا شیطان پسپا ہوتا گیا اور پیچھے بھاگتا رہا یہاں تک کہ وہ گھاٹی پر پہنچ گیا۔ یہی وہ مقام تھا جب اس نے آج سے کئی ہزار سال قبل پیغمبر خدا ابراہیم علیہ السلام کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی اور منہ کی کھائی۔جب ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں حکم ہوا کہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا کے حکم پر ذبح کردیں تو آپ اس حکم کی تعمیل کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ آپ جب آگے بڑھے تو شیطان نمودار ہوا اور وسوسہ ڈالا کہ کیا اپنے اکلوتے فرزند کو قربان کردو گے جو تمہارے بڑھاپے کا سہارا ہے ، جو تمہاری آنکھ کا تارا ہے؟ لیکن خلیل اللہ نے اس آواز پر کان نہ دھرے بلکہ شیطان کو کنکریاں مار کر دھتکار دیا۔

آج اسی شیطان کی پٹائی لاکھوں فرزندان توحید کے ہاتھوں ہورہی تھی۔بڑا شیطان جونہی اہل ایمان کے سامنے آیا تو انہوں نے اپنے جد امجد کی سنت پر عمل شروع کردیا۔اہل ایمان نے پہلی کنکری مار کر شیطان کے شرک کا انکار اور خدا کی توحید کا اقرار کیا۔ دوسری کنکری مار کر انکار آخرت اور الحاد کے فتنے کا بطلان کیا۔ تیسری کنکری شیطان کی جنسی ترغیبات کو ماری۔ چوتھی کنکری معاشی ظلم و عدوان پر پھینکی۔ پانچویں کنکری شیطان کی پرفریب دجالی تہذیب پر ماری۔ چھٹی کنکر ی ابلیس کے قتل انسانیت کے فتنے پر پھینکی اور آخری کنکری اخلاقی بگاڑ کے عوامل پر ماردی۔ اہل ایمان کے یہ سنگ ریزے اس پر ایٹم بم کی طرح برس رہے تھے کیونکہ ان میں قوت ایمانی موجود تھی۔شیطان ان سے بچنے کی بھر پور کوشش کرہا تھا لیکن وہ اس میں مکمل طور پر ناکام تھا۔

اب لبیک کا تلبیہ ختم ہوچکا تھا کیونکہ اہل ایمان اپنے رب کے بلاوے پر حاضر ہوچکے اور شیطان کو سنگسار کرچکے تھے۔ اب اللہ کی حمد ثنا اور بڑائی بیان کی جا رہی تھی۔

اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد
اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ بڑا ہے اللہ بڑا ہے اور اللہ کے لئے ہی تمام تعریفیں ہیں۔

اب اہل ایمان قربانی کے لئے تیار تھے۔ انہوں نے اللہ کی مدد سے اپنے خارجی دشمن کی تو ناک رگڑ دی تھی لیکن اپنے داخلی دشمن یعنی نفس امارہ کو لگام دینا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ تمام حجاج نے قربانی کرکے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو قربا ن کرکے خدا کے ایک اور حکم کی تعمیل کی۔ اس کے بعد انہوں نے حلق کروایا ۔ یہ سر منڈوانا دراصل خود کو خدا کی غلامی میں دینے کا عہد تھا۔ یہ بات عہد الست کی تجدید تھی کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے۔ یہ اس وعدے کا اعادہ تھا کہ اللہ کی بندگی میں پورے پورے داخل ہونا ہے، اس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنا ہے، اس کی نافرمانی سے حتی الامکان گریز کرنا اور اسے راضی رکھنے کی کوشش میں کسی بھی انتہا سے گذرجانا ہے۔

اب احرام اتر گیا تھا لیکن تمام اہل ایمان باطنی احرام سے آراستہ ہوچکے تھے۔ شکرانے کے طور پر انہوں نے اللہ کے گھر کا طواف کیا اور سعی کے بعد دوبارہ منیٰ میں قیام پذیر ہوگئے جہاں شیطان کے بچے کچھے چیلوں پر مزید سنگباری کرنی تھی۔

جاری ہے ۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں