دین اسلام کے مختلف پہلو۔۔۔ مقتبس خطبہ حج 1438

دین اسلام کے مختلف پہلو

مقتبس: خطبہ حج 1438
خطیبِ حج: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر سعد بن ناصر بن عبد العزیز الشثری
ترجمہ: محمد عاطف الیاس

رسول اللہ ﷺ نے؁010ھ میں حج کیا اور اُسی سال عرفات کے دن اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی:

’’ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔‘‘(سورة المائدة: 3)

اس آیت میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ اللہ کا دین مکمل ہو چکا ہے اور اخلاقِ عالیہ اور یہ شریعت اب مکمل ہو گئی ہے۔

>> دین اسلام کا ایک خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اس نے اتحاد واتفاق قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور بھلے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو۔‘‘(سورة المائدة: 1)

>> دین اسلام کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں حسنِ اخلاق اپنانے اور بھلے بول بولنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’ اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہتر ہے۔‘‘ (سورة الاسراء: 53)

اسی طرح نبی ﷺ کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’(اے پیغمبرﷺ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔‘‘(سورة آل عمران: 159)

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کا حکم دیا ہے۔

>> ہمارے دین کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں سچائی کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچائی، عہد اور امانت کی پاسداری کو ایسی صفات قرار دیا ہے جو مؤمن کو منافق سے ممتاز کر دیتی ہیں۔

>> دین اسلام کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ یہ دین سارے انسانوں کے لیے سرا سر بھلائی ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’اے محمدؐ، ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے ۔‘‘( الانبياء: 107)

>> دین اسلام کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں عدل اور احسان کا حکم دیا گیا ہے۔ اس میں ہر حقدار کو اس کا مکمل حق دینے کی تلقین کی گئی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

’’ اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے ۔‘‘(سورة الانبياء: 107)

>> دین اسلام کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ یہ انسانی زندگی کو بہترین انداز میں منظم کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’ حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے جو لو گ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں۔‘‘(سورة الاسراء: 9)

>> دین اسلام گھریلو زندگی کو بھی منظم کرتا ہے اور ایسے طریقے تجویز کرتا ہے جس سے دونوں شریک حیات ایک دوسرے سے خوش رہ سکتے ہیں اور جس سے آئندہ نسل کی بھلی تربیت ممکن ہتی ہے، تاکہ وہ معاشرے میں فعّال کردار ادا کر سکیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘(سورة الروم: 30)

>> دین اسلام نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، اولاد کی اچھی تربیت اور رشتے داروں سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ سارا معاشرہ مکمل طور سے مضبوط اور مستحکم ہو جائے۔

>> دین اسلام میں برائی اور ہلاکت خیز کاموں سے منع کیا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’ اے محمد! اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے ‘‘ (الاعراف: 33)

>> دین اسلام کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ یہ انسان کے مالی معاملات کو منظم کر دیتا ہے اور ایسے طریقے تجویز کرتا ہے کہ جن سے لوگوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوتی ہیں، تجارت کو بھی فروغ ملتا ہے اور معاشی ترقی بھی ہوتی ہے۔ دین اسلام نے باہمی اعتماد کو تمام مالی معاملات کی اساس بنایا ہے۔ چنانچہ اسلام میں دھوکہ حرام قرار پایا، باطل طریقوں سے لوگوں کا مال کھانا جرم قرار پایا، سود منع کر دیا گیا اور تجارت میں لین دین کی تمام تر تفصیلات ایمان داری کے ساتھ بیان کرنے کا حکم دیا گیا۔ جوانا جائز ٹھہرا اور عدل وانصاف کا حکم نازل ہوا اور ہر ایک کو اس کا حق دینے کی نصیحت کی گئی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:

’’تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے لیے محترم ہیں‘‘

>> اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ دین اسلام نے معاشرے میں امن وامان اور سلامتی کے ضامن اخلاق کو فروغ دیا ہے، تاکہ زندگی خوشگوار بن سکے، تجارت بڑھ سکے، دلوں کو سکون مل سکے اور لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی عبادت کر سکیں۔
مسلمان جہاں بھی ہو، وہ امن کا محافظ ہوتا ہے۔ وہ کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ وہ زیادتی کس طرح کر سکتا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنتا ہے:

’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کر لو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ کو زیادتی کرنے والے سخت ناپسند ہیں۔‘‘ (المائدة: 87)

 >> دین اسلام نے عقائد کی حفاظت کے لیے بھی قانون بنائے ہیں اور انسان کی فکر کی حفاظت کے لیے بھی، سیاست کی حفاظت کے لیے بھی قانون بنائے ہیں اور اخلاق کی حفاظت کے لیے بھی منصوبہ بندی کی ہے۔ دین اسلام تو تمام ممالک میں امن وامان کا داعی ہے، بلکہ دین اسلام تو دلوں میں محبت کا بیج بونے والا ہے۔ اسلام تو ہر مسلمان کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ دین میں حسد کی بڑی مذمت کی گئی ہے۔ حسد کی بڑی مذمت کی گئی ہے۔ ایک دوسرے کو برا سمجھنے سے منع کیا گیا ہے۔

>> جاہلیت میں عصبیت پرستی عام تھی۔ لوگوں کے رتبے الگ الگ سمجھے جاتے تھے۔ حسب ونسب پر فخر عام تھا۔ دین اسلام نے ان سب چیزوں سے منع فرمایا۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے، اُس طرح اب اللہ کا ذکر کرو، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‘‘ (بقرۃ: 200)

اے امت اسلامیہ کے لوگو!

اللہ کی کتاب کو تھامے رکھو! اسی میں تمہاری بھلائی اور کامیابی ہے۔ فرمان الٰہی ہے:"

’’ لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے‘‘ (نساء: 174)

اے امت کے حکمرانو!

یہ ہے اللہ کی کتاب! یہ تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ اس کے طریقے پر چلو اور اسی کے مطابق فیصلے کرو! اسے امت میں عام کرو! فرمانِ الٰہی ہے:

’’پھر اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اُس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور جو حق تمہارے پاس آیا ہے اُس سے منہ موڑ کر ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو‘‘ (مائدہ: 48)

اے امت اسلامیہ کے علما!

اللہ کی کتاب ہی ہدایت کا حقیقی ذریعہ ہے۔ اسی میں امت اسلامیہ کے مسائل کے حل تلاش کرو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو اِن کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں‘‘ (نساء: 83)
اللہ تعالیٰ نے جن احکام اور اخلاق عالیہ کا حکم دیا ہے انہیں پھیلا کر اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرو۔

اے والدین! اے قوم کی تربیت کے ذمہ داران! اساتذہ کرام!

ہمارے بچوں کو قرآن کریم سیکھنے کی بڑی ضرورت ہے۔ اسی میں کامل ہدایت ہے اور اسی میں مکمل اخلاق کی تلقین کی گئی ہے۔

اے میڈیا کے لوگو!

قرآن کریم کی بھلی تعلیمات اور اس آنے والی بھلائی عام کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔

اے مال دارو!

قرآن کریم کی دعوت عام کرنے کے لیے، اسے پڑھنے، پڑھانے، اس پر عمل کرنے اور اس کی طرف دعوت دینے کی ترغیب دلانے کے لیے اللہ کا دیا ہوا مال خرچ کرو اور اسے تقربِ الٰہی کے ذریعہ بناؤ۔ فرمانِ الٰہی ہے:

’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی‘‘ (بقرۃ: 261)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں