ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ-7

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-7
الرحیق المختوم
میری ہوٹل کافی آرام دہ تھی۔ میں اپنے ساتھ مولانا صفی مبارک پوری کی سیرت النبی کی معرکۃ الآراء کتاب الرحیق المختوم بھی ساتھ لے گیا تھا ۔ یہ کتاب میں نے اس سے قبل پڑھی ہوئی تھی لیکن مکہ میں پڑھنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو یوں لگا کہ میں چودہ سو سال قبل کے دور میں پہنچ چکا ہوں۔ آج وہ گلیاں اور محلے تو موجود نہ تھے لیکن اس کے آثار ضرور موجود تھے۔ یہ مکہ کے پہاڑ گواہ تھے اس تاریخ کے جو یہاں پر رقم ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبو ت سے قبل کی زندگی، آپ کا صادق وامین کا لقب پانا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال تجارت کی غرض سے لے کر جانا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خدیجہ سے نکاح کرنا۔پھر آپ کا غار حرا میں یکسوئی کے لئے جانا اور پھر فرشتے کا پہلی وحی لے کر آنا۔ وہ آپ کا قریش کو انذار کرنا اور پھر ان کے ظلم و ستم برداشت کرنا۔ وہ آپ کے چچا ابو طالب کا آپ کو سپورٹ کرنا، شعب بن ابی طالب میں ڈھائی سال تک مقاطعہ برداشت کرنا۔ وہ طائف کے سرداروں کو اسلام کی دعوت دینا اور پھر ا ن کا توہین آمیز سلوک جھیلنا ۔ یہ سب واقعات میرے ذہن میں ایک فلم کے مناظر کی طرح چل رہے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت دراصل ایک نئے دور کا پیش خیمہ تھی۔ آپ کی بعثت کے ساتھ ہی آخری مرتبہ خدائی عدالت دنیا میں لگی تھی ۔ اس سے قبل کئی رسولوں کو دنیا میں بھیجا جاچکا تھا اوران رسولوں کے انکار پر اللہ کی عدالت سے موت کا فیصلہ ان کافر اقوام پر نافذ ہوچکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر یہی پیغام قریش یعنی بنی اسماعیل کو دے دیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے سوچتے سمجھتے انکار کیا تو ان کا انجام بھی قوم عاد اور ثمود سے مختلف نہ ہوگا۔
تیرہ سالہ مکی دور کی جدوجہد کے نتیجے میں نبی کریم پر چند ہی لوگ ایمان لائے۔ بعد میں مدینے کے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا اور آ پ نے مدینے ہجرت کی جہاں آپ نے ایک ریاست کی بنیاد رکھی۔مدینے میں قیام کے دس سال کے دوران اسلام عرب پر چھاگیا اور یوں ایک ایسی امت تیار ہوگئی جس نے رہتی دنیا تک پیغمبروں کا کام کرنا اور لوگوں کو شیطان کے رغبات سے دور کرکے رحمان کی جانب بلانا تھا۔

حج اور آج کے مسلمان
ابتدا میں تو مسلمانوں نے پوری دنیا کو خدا کی وحدانیت سے روشناس کرایا اور انہیں آخرت میں کامیابی کا پیغام خوش اسلوبی سے پہنچایا۔ لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں کی اکثریت شیطان اور نفس امارہ کے مقابلے میں شکست کھانے لگی۔آج چودہ سو سال بعد یہ حالت ہے کہ غیرمسلم دنیااس وقت الحاد، شرک، انکار آخرت، مادہ پرستی، جنسی بے راہ روی، معاشی فساد اورقتل و غارت گری جیسے گناہوں میں مبتلا ہے۔ ان تمام مسائل کا واحد علاج اسلام کی دعوت ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ آج کے مسلمان جو معالج کی جگہ پر تھے خود ہی اخلاقی و روحانی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔ جنہیں تعلیم دینا تھی خود ہی مغربی فلسفے سے مرعوب ہوگئے، جنہیں اسلامی تہذیب دنیا میں پھیلانی تھی خود ہی اغیار کی تہذیب کے خوگر ہوچلے۔
آج مسلمانوں کی اکثریت ظاہر پرستی کا شکار ہے ۔ ان کی اکثریت خدا کو مانتی ہے لیکن رسمی طور پر، آخرت کا عقیدہ رکھتی ہے لیکن زبانی حد تک۔اس امت کی اکثریت نے قرآن کو سمجھنا چھوڑ دیا ، نماز کو ترک کردیا، زکوۃ سے جان چھڑانے کے حیلے اختیار کیے،روزے کی روح سے محروم ہوگئے اور حج کو ظاہری رسومات کا مجموعہ بنالیا۔
دوسری جانب ہماری اخلاقی حالت بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں۔ چنانچہ فقہی یا سیاسی اختلاف پر تکفیر اور قتل کردینا ایک عام سی بات ہے۔ فرقہ بندی، حسد، نفرت، تشدد، جھوٹ، غیبت، بہتان ، فحش کلامی اور بدگوئی معمول ہے۔ اسی طرح سود خوری، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اورناجائز منافع خوری ہمارے معاشی نظام کے اجزا ہیں۔ سیاسی میدان میں دھوکہ دہی، بدعنوانی، مفاد پرستی، لوٹ مار اور اقربا پروری کی مثالیں عام ہیں۔
کم وبیش یہی مناظر پوری مسلم دنیا میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ آج مسلمانوں کی ایمان و اخلاق کی بگڑی ہوئی حالت کی بنا پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شیطان کا پلہ بھاری ہے۔ ایک طرف تو اس نے غیر مسلم دنیا میں بگاڑ پیدا کررکھا ہے تو دوسری جانب اس بگاڑ کو دور کرنے والے داعیوں کو بھی اپنے دام فریب میں الجھالیا ہے۔ لیکن خدا کے چنے ہوئے بندے ہر دور میں موجود رہے ہیں جنہوں نے فساد کی فضا میں اپنے ایمان و عمل کی حفاظت کی اور خود کو طاغوتی یلغار سے محفوظ رکھا ۔ یہی لوگ اصل میں وہ لوگ ہیں جن کے لئے اس دنیا کی سیج سجائی گئی اور جنت کے انعامات مخصوص کردیے گئے۔ انہی بندوں پر آج دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے امت مسلمہ کے داخلی بگاڑ کو درست کرنا ہے اور دوسری جانب غیر مسلم دنیا کو بھی اسلام کا پیغام حکمت و دانائی کے ساتھ پہنچانا ہے۔
حج اس داخلی و خارجی اصلاح کا نکتہ آغاز ہے۔حج کا بنیادی مقصد انسان کوروحانی تطہیر کا ایک موقع فراہم کرنا ہے تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو کر اپنی اصل فطرت پرلوٹ آئے اور جنت کی شہریت کے قابل ہوجائے۔ یہ حج مختلف عبادات کا ایک جامع پیکیج ہے جوتزکیہ نفس کے لئے اکسیر ہے۔ اس پیکیج میں نماز ، انفاق ، ہجرت، بھوک و پیاس، مجاہدہ، جہاد، زہد و درویشی ،قربانی، صبر، شکر سب شامل ہیں۔ دوسری جانب حج کے ذریعےمسلمان اسلام کے مرکز ، تاریخ اور شعائر سے آگاہ ہوتے اور اپنے آباء حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانیوں سے روشنا س ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ حج شیطان کے خلاف جنگ کا ایک علامتی اظہار ہے۔ بندہ اپنے رب کی رضا کے لئے دنیا کی زینت کو خود پر حرام کرلیتا ہے۔ وہ اپنا میل کچیل دور نہیں کرتا، ناخن نہیں کاٹتا، جائز جنسی امور سے گریز کرتا ، مختصرلباس زیب تن کرتا، برہنہ پا اور ننگے سر ہوکرروحانی مدارج طے کرتا اور خدا کا تقرب حاصل کرتا ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک وہ اپنے ازلی دشمن یعنی شیطان کو شکست سے دوچار نہ کردے۔
حج کا اصل فلسفہ تو یہی تھا کہ مسلمان اپنے ایمان و اخلاق کا جائزہ لیں، اپنی کمزوریوں کو پہچانیں، اپنی اصلاح وتربیت کریں اور پھر خدا کا پیغام پوری دنیا تک انسانوں کو پہنچائیں۔ اس طرح وہ خود بھی اس جنگ میں سرخرو ہوجائیں گےاور اپنے غیر مسلم بھائیوں کو بھی طاغوت کے فریب سے نکال دیں گے۔ لیکن افسوس آج کے مسلمان حج کو ایک فقہی حکم کے طور پر ادا کرنے آئے تھے اوران کی اکثریت حج کی روح سے نابلد تھی۔انہیں حج کے ظاہری مسائل کے بارے میں تو خوب تربیت دی گئی تھی لیکن حج کی روح اور فلسفے پر بہت کم علم فراہم کیا گیا تھا۔

رفث ، فسوق اور جدال
حج کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ہدایات دیں جن میں سب سے اہم ہدایت اس آیت میں ہے:
حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیّت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل ، کوئی فسق وفجور،کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو ۔ اور جو نیک کام تم کرو گے ، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ ۔ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے ۔ پس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیزکرو۔(البقرہ ۱۹۷:۲)
اس آیت میں واضح طور پر تین باتوں سے منع کیا گیا ہے جن میں پہلی ہدایت یہ ہےکہ رفث نہ ہو۔ رفث شہوانی باتوں کو کہتے ہیں۔ جنسی امور دو طرح کے ہوتے ہیں جائز اور ناجائز۔ حج کے دوران نہ تو کوئی جنسی عمل یعنی جماع کی اجازت ہے اور نہ ہی جنسی بات چیت کی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حج جہاد کی ایک شکل ہے اور جہاد میں اصل مقصد اپنے دشمن کو شکست سے دوچار کرنا ہے نہ کہ جنسی معاملات سے لذت حاصل کرنا ۔ اس قسم کی کوئی بھی کوتاہی انسان کو اپنے اصل مقصد سے ہٹادیتی ہے۔
دوسری بات جس سے منع کیا گیا وہ ہر قسم کا چھوٹا اور بڑا گنا ہ ۔ یوں تو گناہ ویسے ہی ممنوع ہے لیکن حرم میں یہ بدر جہ اولیٰ منع ہے۔ حج میں گناہ کا جان بوجھ کر ارتکاب ایسا ہی ہے جیسے کوئی فوجی پیٹھ پھیر کر میدان جنگ سے فرار ہوجائے اور اسی پر بس نہ کرے بلکہ دشمن کی فوجوں میں شامل ہوجائے۔ حج کا مقصد خدا کی غلامی کا تقاضا پورا کرتے ہوئے طاغوتی محرکات کو شکست دینا ہے لیکن جب کوئی شخص گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ خدا کی بندگی سے نکل کر طاغوت کی یلغار کا شکار ہوجاتا ہے ۔لہٰذا ابلیس کو شکست دینے کے لئے لازم ہے کہ خدا کی ہر چھوٹی اور بڑی نافرمانی سے حتی المقدور گریز کیا جائے۔
تیسری چیز جس سے روکا گیا وہ لڑائی جھگڑا ہے۔ اس میں ہر وہ عمل شامل ہے جو یا توبذات خود لڑائی ہو یا کسی فساد کا سبب بنے۔ جدال سے مراد زبانی لڑائی، بدتمیزی، بدگوئی اور ہاتھا پائی ہے ۔لڑائی کے اساب میں ایذا رسانی ، طنزو تشنیع ، دھکے بازی، بے احتیاطی سے طواف کرنا، بدگمانی ، بہتان ، تکبر وغیر ہ شامل ہیں۔ان سب سے گریز لازمی ہے ورنہ حج کے ثمرات حاصل کرنا مشکل ہے۔

یہ آیت میں نے اس قبل بھی کئی مرتبہ پڑھی تھی لیکن سمجھ میں اس وقت آئی جب حرم پہنچا۔ ان تینوں گناہوں کے مواقع بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔ دنیا بھر سے مختلف رنگ اور نسل کے مسلمان حاضر ہوتے ہیں ۔ ان میں خاص طور پر شام ، لبنا ن اور مصر کے لوگ غیر معمولی طور پر حسین ہوتے ہیں۔اس تنوع اور ظاہری حسن کی بنا پر بدنگاہی کا پورا امکان موجود ہوتا ہے۔ دوسری جانب لوگوں کی جائز جنسی ضروریات پر بھی پابندی کی بنا پر صنف مخالف میں کشش بڑھ جاتی ہے ۔نیز مطاف میں عورت اور مرد ایک ساتھ طواف کررہے ہوتے ہیں جس سے ایک دوسرے سے جسمانی طور پر بچنا بعض اوقات دشوار ہوجاتا ہے۔ یہ سارے عوامل شہوت کو ابھارنے میں معاون ہوسکتے ہیں اس لئے پہلے ہی حکم دے دیا کہ جائز و ناجائز جنسی عمل سے متعلق ایک لفظ بھی زبان پر نہ آئے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب خیالات میں پاکیزگی اختیا ر کی جائے اور یکسو ہو کر حج کے فلسفے پر عمل کیا جائے۔

جہاں تک عام زندگی کا تعلق ہے تو مسلمان بالعموم مختلف گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں لیکن حج ایک تزکیہ اور تربیت کا عمل ہے ۔ چنانچہ یہاں اپنے آپ کو ہر قسم کے گناہ سے بچانا، آئندہ کے لیے تربیت حاصل کرنا اور اسے ترک کرنے کا عزم کرنا لازمی ہے۔ اسی بنا پر ہر قسم کے گناہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ حج میں عام طور پر لوگ جن گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ا ن میں زبان کے گناہ یعنی جھوٹ، غیبت، بہتان، بدزبانی،لغو باتیں ، گستاخانہ مکالمے وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح لوگ غیر قوم کے لوگوں کی زبان اور باڈی لینگویج نہ سمجھنے کی بنا پر بدگمانی، ٹوہ لینا، حسد، نفرت، کینہ وغیر ہ جیسے گناہوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔طواف کے دوران دھکے دینا ، حجر اسود کو بوسہ دینے کے لئےلوگوں کو ایذا دینا ، راستے میں نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوجانا بھی بہت عام گناہ ہیں ۔نیز بازاروں میں اسراف کرنا، اللہ کی یاد کی بجائے شاپنگ میں وقت ضائع کرنا، خاص طور پر فجر کی نماز ترک کرنا بھی چند اور غیر مطلوب کام ہیں۔ سب سے اہم گناہ اللہ کے شعائر کی بے حرمتی کرنا ہے ۔ اس میں مسجدالحرام میں بلاوجہ شور شرابہ ، ہنسی مذاق، طواف میں بے ادبی، صفا مرو ہ کی تکریم نہ کرنا اور ان جگہوں کو پکنک پوائنٹ کے طور پر استعمال کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ ان سب سے بچنے کے لئے تعلیم اور تربیت دونوں کی ضرورت ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں