ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ-6

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-6
مسجدالحرام
اگلے دن جمعہ تھا۔ لوگوں نے بتایا تھا کہ جمعہ کے دن مسجدالحرام میں جگہ مشکل سے ملتی ہے۔ چنانچہ میں صبح دس بجے ہی مسجد پہنچ گیا۔ ایک ایسی جگہ منتخب کی جہاں سے کعبہ بالکل سامنے تھا۔ وہاں مسجدالحرام کے درو دیوار کا بغور جائزہ لینے لگا۔ مسجد کی چھت، دیواریں، فانوس اور بلندو بالا ستون آرٹ کا بہترین نمونہ تھے۔مسجدا لحرام کا موجودہ رقبہ ۸۸ ایکڑ سے زائد ہے۔میرے سامنے بیت اللہ تھا۔ اسے دیکھ کر مجھے اس کی تاریخ یاد آنے لگی۔
مکہ کا پرانا نام بکہ ہے۔ خانہء کعبہ وہ پہلا گھر ہے جسے اللہ نے عبادت کے لئے خاص کیا۔ اس کی تاریخ کی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت حاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہما لسلام کو اس وادی میں بسا کر کی۔ بعد میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام نے اللہ کے حکم سےکعبہ کی تعمیرِنو کی۔ ایک تحقیق کے مطابق یہودیوں کا بھی یہی قبلہ تھا اور بیت المقدس کا رخ کعبہ کی طرف ہی تھا۔ بعد میں یہودیوں نے تحریف کرکے کعبے کا ذکر ہی بائبل سے غائب کردیا۔
اگر پیغمبروں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اسے تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلا دور حضرت آدم سے حضرت نوح علیہ السلام کا ہے ۔ اس دور میں پیغمبر براہ راست قوم سے مخاطب ہوتا اور اسے انذارو تبشیر کرتا تھا۔ اگر قوم انکار کردیتی تھی تو ایک مخصوص مدت کے بعد ان پر موت کی سزا نافذ ہوجاتی تھی اس قانون کو قانون دینونت کہا جاتا ہے۔ دوسرا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے جس میں پیغمبر ایک ہی نسل میں پیدا ہوتے رہے اور ساتھ ہی ان میں سے کچھ پیغمبروں کو کتاب بھی دی گئی۔ اس دور میں بھی رسولوں کو بھیج کر قانون دینونت کا اطلاق کیا گیا جبکہ انبیاء بھی بھیجے گئے ۔
تیسرا دور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دور ہے جس میں ایک کتاب اور نبی کی سنت کو رہتی دنیا کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنادیا گیا۔ اس تیسرے دور کے آغاز کے لئے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی انتظام کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی بیوی حضرت حاجرہ علیہ السلام اور اپنے پہلوٹھے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک غیر آباد لیکن مقدس وادی میں بسایا۔ اس کا مقصد ایک ایسی قوم کو پیدا کرنا تھا جو حامل کتاب بن کر دنیا کو ابدی ہدایت کا راستہ دکھا سکے۔ حضرت حاجرہ علیہ السلام نے اللہ کے اس فیصلے پر سر تسلیم خم کیا اور ایک عظیم قربانی کے لیے تیار ہوگئیں۔ حضرت حاجرہ علیہا السلام کے رہائش پذیر ہوجانے کے بعد قبیلہ جرہم اور ارد گرد کے دیگر قبائل بھی کعبہ کے گرد آباد ہوگئے۔ امام حمیدالدین فراہی کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت حاجرہ علیہا السلام ہی کے ساتھ قیام کیا جبکہ وہ کبھی کبھی فلسطین حضرت سارہ علیہا السلام کے پاس چلے جایا کرتے تھے۔
جب حضرت اسمٰعیل بڑے ہوئے تو خواب میں حضرت ابراہیم کو اشارہ ملا کہ وہ اپنے اکلوتے فرزند کو ذبح کریں۔ آپ نے حضرت اسماعیل کی رائے دریافت کی تو انہوں نے سر تسلیم خم کردیا،چنانچہ آپ حکم کی تکمیل کے لئے مقررہ مقام پر پہنچے تو اس وقت اللہ نے ایک دنبہ بھیج دیا اور حضرت اسماعیل کو ذبح ہونے سے بچالیا۔
اس کے کچھ عرصے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہماالسلام نے کعبہ کی تعمیر کی۔ یہ معلوم تاریخ میں کعبہ کی پہلی تعمیر تھی جو ۲۱۳۰ قبل مسیح میں عمل میں آئی۔ حضرت ابراہیم ہی کی دعا کی بنا پر مکہ کو رزق میں انتہائی برکت عطا کی گئی۔ پھر مکہ کو حرم بنادیا گیا جس میں لڑائی جھگڑا، ایذارسانی ، قتل یہاں تک کہ کسی جاندار کو اذیت پہنچانا حرام قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد آپ کو حکم ہوا کہ لوگوں کو حج کے لئے بلاؤ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے حج کی منادی کی ۔ چنانچہ یہ حج اس وقت سے آج تک مکہ میں ہورہا ہے۔بیت اللہ کی یہ اہمیت صرف بنی اسمٰعیل کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ یہ بنی اسرائیل کے لئے بھی تھی۔ چنانچہ ایک تحقیق کے مطابق یہود کوبھی قربانی اور عبادات کے وقت اپنا رخ بیت اللہ کی جانب ہی رکھنے کا حکم تھا اور بیت المقدس کا رخ بھی کعبہ ہی کی جانب رکھا گیا۔
حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام کی تعمیر کے بعد کعبہ دوبارہ قریش کے دور میں تعمیر ہوا۔ اس وقت کعبہ کی حالت کافی خستہ تھی۔ البتہ قریش کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی خرچ کریں گے۔ چنانچہ رقم کم پڑ جانے کے باعث ایک حصہ کو کعبہ میں شامل نہیں کیا گیا۔ یہ حصہ آج بھی موجود ہے جسے حطیم کہتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ جس نے حطیم میں نماز پڑھی اس نے گویا کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔
کعبہ کی اگلی تعمیر حضرت عبداللہ بن زبیر نے ۶۸۳ عیسوی میں کی جب یزید کی افواج نے خانہ کعبہ کو نقصان پہنچایا۔ اس تعمیر میں حطیم کو کعبہ کے اندر شامل کردیا گیا۔ بعد ازاں ۶۹۳ عیسوی میں عبدالملک بن مروان نے کعبہ کو ڈھا کر دوبارہ قریش کی طرز پر شامل کردیا اور حطیم کو کعبہ سے باہر کردیا۔ موجودہ کعبہ آج تک اسی تعمیر پر قائم ہے۔قدیم کعبہ چاروں طرف پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا لیکن آج یہ بلندو بالا عمارتوں کے نرغے میں ہے۔ ایک جانب مکہ اور زم زم ٹاور ہے تو دوسری جانب سعودی محلات موجود ہیں۔

حرم میں لڑائی
میں ابھی بیٹھا جمعہ کی نماز کا انتظار ہی کررہا تھا کہ اچانک دو آدمی جگہ پر لڑ پڑے۔ اتفاق سے وہ دونوں پاکستانی تھے۔ میرے لیے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ کوئی عین کعبہ کے سامنے بھی لڑ سکتا ہے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ لوگ لاکھوں روپے خرچ کرکے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ کی رہ میں حج کرنے آتے ہیں لیکن انہیں حج کا مقصد ہی معلوم نہیں ہوتا۔اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی مناسب تربیت نہ ہونا ہے۔ اکثر علماء نے اسلام کو ظاہری عبادات اور رسومات کا ایک ڈھانچہ بنا کر ہی لوگوں کے سامنے پیش کیا اور عام طور پر اسی کی تبلیغ کی۔ انہوں نے اخلاقیات پر بہت زیادہ زور نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان عام طور پر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں۔

بالآخر اما م صاحب نے جمعہ خطبہ دیا جس میں زیادہ تر عمومی ہدایات تھیں۔ نماز اول وقت میں پڑھادی گئی اور نماز کے بعد کوئی دعا نہیں مانگی گئی۔ سعودی علماء حنبلی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔سعودی حکومت کے قیام سے قبل حرم میں چار مصلے ہوتے تھے جس کی ابتدا کافی پہلے ہوئی تھی ۔ ہر مسلک کی جماعت الگ ہوتی تھی جن میں سب سے پہلے حنبلی مسلک کی جماعت ہوتی تھی۔ بعد میں یہ مصلیٰ ایک ہی کردیا گیا۔
حنبلی مسلک میں جماعت بالکل ابتدائی وقت میں ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ظہر کا وقت بارہ بج کر نو منٹ پر شروع ہو تو اسی وقت اذان دے دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حرم میں نماز کے اوقات ہردوسرے دن تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ حنبلی مسلک میں عصر کی نماز کا وقت بھی جلدی شروع ہوتا ہے۔ بلکہ حنفی مسلک کو چھوڑ کر تمام مسالک میں عصر کی نماز کا وقت وہ ہے جب سایہ ایک مثل یعنی اپنے قد کے برابر ہوجائے۔ پاکستا ن اور انڈیا کی اکثریت چونکہ حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہے اس لئے وہ خاصے تشویش میں ہوتے ہیں۔ لیکن احناف کے علماء کا فتوٰی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لینے سے اول وقت میں بھی جماعت ہوجاتی ہے۔

طریق طریق
نماز پڑھ لینے کے بعد میں نے طواف شروع کیا۔ یہ میرا دوسرا طواف تھا۔ طواف اصل میں نماز ہی ہے لیکن یہ عبادت صرف کعبہ کے گرد ہی ہوسکتی ہے اور اس میں ضرورت کے وقت بات چیت کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ طواف کے دوران میں نے کچھ لوگوں کو احرام کی حالت میں بھاگتے ہوئے دیکھا۔ یہ رمل کہلاتا ہے۔ اس کی تاریخ یہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے اگلے سال مسلمان عمرہ ادا کرنے مکہ آئے تو قریش کی عورتوں نے مسلمانوں پر طنز کیا کہ یہ تو مدینے میں رہ کر کمزور ہوگئے ہیں۔ اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تم لوگ اپنے پنجوں کے بل اکڑ کر تیز تیز چلو تاکہ دیکھنے والوں کو رعب اور طاقت کا احساس ہو۔ یہ رمل آج بھی سنت کے طور پر پہلے تین چکروں میں کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اس سے کسی کو تکلیف ہو تو یہ ممنوع ہے۔
مسجدالحرام میں تقریباً ہر نماز میں جنازے لائے جاتے تھے ۔ جنازہ کے بعد لوگ تیزی سے جنازہ اٹھاکر باہر کی جانب لے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ طریق طریق بولتے جاتے تھے یعنی راستہ راستہ۔ پاکستانی حاجیوں کو عربی آئے یا نہ آئے لیکن وہ طریق طریق ضرور سیکھ لیتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں