ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ- 4

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-4

طواف
میں لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے مطا ف میں داخل ہوا۔ وہاں خلاف توقع رش کم تھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد سبزلائٹ کی سیدھ میں آگیا۔ اب حجر اسود میرے بائیں جانب تھا۔ یہاں حجر اسود کو استلام کیا یعنی اس کی جانب ہاتھ کا اشارہ کیا۔ یہ درحقیقت اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دینے کی تعبیر تھی۔ یہ اللہ سے بیعت اور عہد کرنے کا انداز تھا، یہ تجدید عہد کا اظہار تھا۔ یہ اپنی خواہشات، رغبات، شہوات، مفادات اور تعصبات کو خدا کی رضا اور اس کے حکم پر قربان کرنے کا وعدہ تھا۔

طواف کی حقیقت یہ ہے کہ قدیم زمانےسے روایت تھی کہ قربانی کے جانور کو معبد ( عبادت گاہ) کے گرد پھیرے دلوائے جاتے تھے جس سے معبد کی عظمت اظہاراور قربانی کے ثمرات کا  حصول مقصود ہو تا تھا ۔ طواف اسی روایت کا علامتی اظہار ہے۔

میں نے طواف کا آغاز کیا۔ اس دوران مقام ابراہیم کو قریب سے دیکھا اور کعبہ کا بغور مشاہدہ کیا۔ ان سات چکروں میں کوئی مخصوص دعا نہیں، کوئی بھی دعا مانگ سکتے اور کسی بھی زبان میں مانگ سکتے ہیں ۔ لیکن میں نے کچھ لوگوں کو مطاف میں دیکھا کہ وہ طواف کے دوران دعاؤں کی کتاب ہاتھ میں لیے طواف کررہے تھے۔ جبکہ کچھ لوگ کورس کی شکل میں دعائیں پڑھ رہے تھے ۔ اس سے طواف کا حسن اور روح برباد ہورہی تھی۔ طواف تو خاموشی سے اللہ سے لو لگانے ، اس کے مناجات کرنے اور اس کی بڑائی بیان کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنی جان کا نذرانہ خدا کے حضور پیش کرنے کا علامتی اظہار ہے۔ لیکن ہمارے بھائی عام طور پر اس فلسفے سے ناواقف ہوتے ہیں اور ظاہر پرستی کی تعلیم نے انہیں اتنا الجھادیا ہوتا ہے کہ وہ ان اعمال کی روح بالکل کھو بیٹھتے ہیں ۔

طواف مکمل کرنے کے بعد دورکعت نماز ادا کی۔ اکثر لوگ مقام ابراہیم کے پاس ہی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں جس سے نماز پڑھنے والوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے ۔ کسی کو تکلیف دینا یوں تو ویسے ہی حرام ہے لیکن حرم میں یہ حرمت اور بڑھ جاتی ہے ۔ چنانچہ بہتر یہ ہے کہ ایسی جگہ نوافل ادا کیے جائیں جہاں لوگوں کے طواف میں رکاوٹ نہ ہو۔ اسی طرح کچھ لوگ حجر اسود اور ملتزم یعنی بیت اللہ کی چوکھٹ کو پکڑنے کے چکر میں لوگوں کو دھکا دیتے اور انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں۔ حجر اسود کو بوسہ دینا ایک نفلی عمل ہے اور ایک نفل کے حصول کے لئے لوگوں کو اذیت دینے جیسا کام کرنا گناہ کا باعث ہے۔

سعی
اس کے بعد اگلا مرحلہ سعی کرنے کا تھا۔ سعی کے لغوی معنی کوشش کے ہیں۔ مسلمانوں کی معروف روایات کے مطابق سعی حضرت حاجرہ علیہ اسلام کی اضطرابی کیفیت کی نقالی ہے جو انہوں نے پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کر کی۔ لیکن کچھ اور علماء کی تحقیق کے مطابق حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام جب حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کو قربان کرنے کے لئے صفا پر پہنچ کر آگے بڑھے تو شیطان نے حکم عدولی کے لئے وسوسہ ڈالا۔ اس وسوسے کے برخلاف وہ حکم کی تعمیل کے لئے تیزی سے دوڑے اور مروہ پر پہنچ کر لختِ جگر خدا کے قدموں میں ڈال دیا۔ بہرحال سعی شیطان کی ترغیب سے بھاگنے اور خدا کی رضا کی جانب دوڑنے کا نام ہے۔

حلق اور غلامی
سعی کے بعد میں باب فتح سے باہر آیا اور لوگوں سے حجام کے بارے میں دریافت کیا۔ قریب ہی بڑی تعدا د میں حجاموں کی دکانیں تھیں۔ ایک دکان میں داخل ہوا۔ وہ پانچ ریال میں حلق کررہے تھے۔ بال کٹوانے کے دو آپشن شریعت میں موجود ہیں ۔ یا تو پورا سر منڈوایا جائے جسے حلق کہتے ہیں اور یا پھر کچھ بال کٹوالئے جائیں جو قصر کہلاتا ہے۔ حلق کا فلسفہ یہ ہے کہ زمانہء قدیم میں جب لوگوں کو غلام بنایا جاتا تو انکا سر مونڈ دیا جاتا تھا جو اس بات کی تعبیر ہوتی کہ یہ کسی کا غلام ہے۔ حاجی علامتی طور پر غلامی کے لوازمات پورے کرتا ہے لہٰذا یہ بھی اپنا سر منڈا کر خدا کی غلامی کی تجدید کرتا اور ہمیشہ اسی کا وفادار رہنے کا عہد کرتا ہے کہ وہ ہر سرد و گرم ،دھوپ چھاؤں، فقروامارت ، تنگی و آسانی پر راضی رہے گا کیونکہ وفادار غلاموں کا یہی شیوہ ہوتا ہے۔

ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلق کروانے والوں کے لیے تین مرتبہ اور قصر کروانے والوں کے لئے ایک مرتبہ دعا فرمائی۔ چنانچہ میں نے زیادہ فضیلت والے عمل کو فوقیت دی۔ شعور کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب میں گنجا ہوا۔لیکن اللہ کی غلامی کا احساس اتنا شدید تھا کہ یہ عمل بھی پر لطف معلوم ہونے لگا۔

یہاں سے واپس ہوٹل کی راہ لی۔ یہ ہوٹل حرم سے صرف ۳۰۰ میٹر کے فاصلے پر اجیاد روڈ پر واقع تھا۔ وہاں غسل کیا اور احرام اتارا۔ یوں احرام پہننے سے لے کر اتارنے تک کے عمل میں پورے چوبیس گھنٹے لگے۔ اب عمرہ پورا ہوچکا اور احرام کی پابندیاں ختم ہوچکی تھیں۔ لیکن مجھے اس بات کا احسا س تھا کہ میں حدود حرم میں ہوں۔ حدود حرم میقات کے اندر موجود رقبے کو کہتے ہیں۔ حرم کا مطلب ہے حرمت والی جگہ ۔ یہ حدود حرم بادشاہ سے قربت کی علامت ہے۔ جب ایک شخص بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا پورا وجود انتہائی ادب اور احترام کی تصویر پیش کرتا ہے۔ نگاہیں نیچی،اعضا ساکن، ہاتھ بندھے ہوئے اور چہرے پر سنجیدگی ۔ گویا ہر عضو یہ کہہ رہا ہے کہ سرکار میں آپ کا تابعدار اور وفادار ہوں۔ اس دربار میں اونچی آواز بھی گستاخی سمجھی جاتی اور معمولی غلطی بھی کڑی سزاکا پیغام بن جاتی ہے۔

مکہ کا حرم بادشاہوں کے بادشاہ کا دربارہے ۔اس دربار کا اپنا پروٹوکول ہے۔ یہاں لمحوں کی غلطی ابدی سزاکا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ اس دربار میں معصیت بدرجہء اولیٰ حرام ہوجاتی اور کچھ جائز امور پر اضافی پابندی لگ جاتی ہے۔مثلاََ یہاں حکم ہے کہ ادب پیشِ نظر رہے، خیالات پاکیزہ ہوں، کسی جاندار کونہ مارا جائے، کسی پتے یا گھاس کو نہیں توڑا جائے اور کسی کو ایذانہ پہنچائی جائے ۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں