تدبرِ القرآن.... سورہ الکھف..... استاد نعمان علی خان...... حصہ-9

تدبرِ القرآن
 سورہ الکھف
 استاد نعمان علی خان
 حصہ-9

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

آیت نمبر- 61
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا - 18:61
جب وه دونوں دریا کے سنگم پر پہنچے، وہاں اپنی مچھلی بھول گئے جس نے دریا میں سرنگ جیسا اپنا راستہ بنالیا۔

جب موسیٰ علیہ اسلام اور ان کا غلام اس مقام پر پہنچے جہاں انہیں پہنچنا تھا تو انہوں نے کچھ دیر آرام کرنے کا ارادہ فرمایا اور وہ وہاں مچھلی کو بھول گئے۔ جس کی وجہ سے انہیں نقصان کا سامنا کرنا پڑگیا۔ 
وہ مچھلی دریا میں سرنگ کی طرح راہ بناتے ہوئے چلی گئی۔ 
کچھ آگے جا کر موسی علیہ اسلام نے اپنے غلام سے فرمایا کہ کھانا لاؤ۔
تب اس غلام نے انہیں بتایا کہ جب آپ آرام فرمارہے تھے تو وہ مچھلی میں وہاں بھول گیا۔ اور مجھے شیطان نے اس کا بھلا دیا ورنہ میں آپ کو ضرور بتاتا۔
اب دیکھیں جس جگہ پر مچھلی نے انہیں چھوڑ جانا تھا وہی پہ ان کی ملاقات خضر سے ہونا تھی۔ مگر کیونکہ یوشع بن نون بھول گئے تھے اس لیے وہ اپنے صحیح مقام سے آگے آگئے۔ 
تب موسی علیہ اسلام آرام فرمارہے تھے اس وجہ سے اس غلام نے انہیں جگایا نہیں اور سوچا کہ جب وہ جاگیں گے تب انہیں بتا دوں گا۔ 
مگر وہ بھول گیا۔
آپ تصور کریں، کہ اب ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا، وہ اپنے اصل مقام سے آگے آچکے تھے، اتنا سفر طے کرنے کے بعد واپس پیچھے جانا آسان نہ تھا۔
جب ہم اپنے سفر میں کھو جاتے ہیں وہ سفر کی سب سے مشکل ترین گھڑی ہوتی ہے 
مگر بات یہ ہے کہ جب آپ علم کے لیے گھر سے نکلیں گے تو آزمائے ضرور جائیں گے۔ اور یہ موسی علیہ اسلام کی آزمائش تھی۔
کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے میں نہیں ٹھہرونگا اور سفر کرتا رہوں گا۔ 
اور اب وہ بھوک کا شکار تھے، تھکے ہوئے تھے، اور اب انہیں واپس پیچھے جانا تھا۔
علم کی طلب قربانی مانگتی ہے۔ اسے مشقت اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
اگر آپ اس رمضان ارادہ رکھتے ہیں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے کا تو اس قصے کو یاد رکھیے گا۔ یاد رکھیے گا کہ آپ آزمائے جائیں گے۔ آسان نہیں ہوگا۔ بھوک لگے گی، تھک جائیں گے، غلطی ہوگی تو واپس پیچھے جانا پڑے گا مگر یہ اس لیے ہوگا تاکہ اللہ آزما سکے کہ کیا واقعی میرا بندہ اپنے قول و فعل میں سچا ہے؟ کہ جو اس نے رمضان سے قبل نیت کی تھی کہ میں اس دفعہ یہ سورہ ضرور حفظ کرونگا، یا اس کی تفسیر لازم پڑھوں گا چاہے کچھ بھی ہوجائے"
تو کیا وہ سچ میں کرتا ہے یا کچھ  دن بعد تھک کے بیٹھ جاتا ہے۔ 
یہ ایک ایسی مشقت ہے جو علم کی طلب رکھنے والوں کو لازمی دیکھنی پڑتی ہے۔ 
علم کا حصول آسان نہیں ہے، اس میں محنت درکار ہوگی، اس کو لگن اور قربانی سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس لیے جب آپ رمضان میں تھکنے لگیں تو فوراً خود کو یاد کروائیے گا کہ موسی علیہ اسلام بھی علم کے لیے گھر سے نکلے تھے، جب وہ تھک گئے تو انہوں نے ہار نہیں مانی تھی بلکہ اپنا مقصد پورا کیا تھا۔ 
اور ہم نے بھی اپنا مقصد پورا کرنا ہے چاہے کوئی بھی مشکل کیوں نہ آئے۔
اللہ اس رمضان میں اور اس کے بعد بھی علم کے حصول کو ہمارے لیے آسان بنائے، ہم سب کو اہل القرآن میں سے بنائے جو قرآن کو سیکھتے ہیں اور پھر دوسروں کو سکھاتے ہیں۔
آمین۔
جاری ہے۔۔۔۔


تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں