دنیا کا سب سے مشکل کام

دنیا کا سب سے مشکل کام

بسم  اللہ الرحمٰن الرحیم

دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے؟

" تم لوگوں کو پتا ہے دنیا کا سب مشکل کام کیا ہے؟" ابلیس نے سوال کیا 

" ابلیس اعظم ہی بہتر جانتے ہیں ۔" چوبدار کی آواز سناٹے میں گونجی۔

" غور سے سنو، کیا ایک ما ں کو اس کے  بچے  سے  دور کرنا، اسے ناراض کرنا  اور بچے پر غضب ڈھانے پر مجبور  کرنا کوئی آسان کام ہے؟   بچے کی برسوں  کی بدبختی  اور نافرمانی بھی ماں ماں کو بچے سے دور نہیں کرپاتی اور ماں اس کی کوتاہوں سے درگذر کرتی رہتی ہے اور اپنی شفقت و محبت نچھاور کرتی رہتی ہے۔ "

مجلس شوری میں سناٹا تھا  اور ابلیس بے تابی سے ادھر ادھر ٹہل کر اپنا مضطرب بیان دے رہا تھا۔ 

" تو بتاؤ ، اگر ایک معمولی سی  ماں کو اپنے بچے سے جدا کرنا اتنا مشکل کام ہے تو خدا ئے رب ذوالجلال کی شفقت کو بندوں سے دور کرنا کتنا مشکل کام ہے۔میری لاکھوں سال کی محنت، ریاضت اور کوششوں کے باوجود آج بھی خدا کی عنایتیں اپنے بندوں پر ہیں، وہ آج بھی ان کو پکار کر اپنی جانب بلارہا ہے، وہ آج بھی انہیں  نت نئے رزق سے نواز رہا ہے، وہ آج بھی ان کی ضروریات کو پورا کررہا ہے، وہ آج بھی ان کواپنے بندوں کے ذریعے سیدھا راستہ دکھانا چاہتا ہے، وہ آج بھی ان    کے باغیانہ رویہ کے باوجود اپنا حتمی عذاب  نہیں بھیج رہا، وہ آج بھی  آسمانی فرشتوں کو سکینت نازل کرنے کے لیے اتار رہا ہے۔"ابلیس غصے سے چیختا رہا۔ 

"میرا اصل مشن تم لوگوں کے بلندو بانگ دعوے سننا نہیں تھا، میں تو خدا کو انسانیت سے ناراض کرنا چاہتا تھا تاکہ انسان سے میرا انتقام پورا ہوجائے اور میں یہ ثابت کردوں کہ انسان واقعی اس قابل نہ تھا کہ  میں اس کے آگے جھک جاتا۔ لیکن آج   میں جیت کر بھی ہاررہا ہوں۔ خدا آج بھی انسانوں کی پشت پر کھڑا ہے اس کے باوجود کہ  کہ ان ناعاقبت اندیشوں نے  اسے ناراض کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ وہ کونسی حرکت ہوگی جو ان انسانوں نے نہیں کی لیکن خدا کا  کامل غضب آج  بھی نہیں بھڑکا ، آج بھی سورج مشرق سے نکلتا، سمندر کی لہریں اٹھکلیاں کرتی، بادنسیم کے جھونکے فرحت پہنچاتے، راتیں  سکون آور بنتیں،   آسمان سے پانی برستا اورزمین کے سینے سے سبزہ نکلتا ہے۔ "

ابلیس کا بیان جاری تھا کہ ایک منسٹر اٹھا اور بولا

" اے ابلیس عظم، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے ناراض نہیں ہوتا، جبکہ وہ تو کہتا ہے میں جہنم کو جن و انسانوں سے بھردوں گا۔"

" یہی تو تم نہیں سمجھ رہے نا بھولے منسٹر، خدا بندوں سے ناراض ہوتا ہے ، ضرور ہوتا ہے لیکن طویل عرصے کے بعد۔ سن لو، انسانوں پر جو مشکلات اس دنیا میں آتی ہیں وہ تین قوانین کے تحت آتی ہیں۔ پہلا قانون آزمائش کا قانون ہے ، دوسرا قانون جزا و سزا کا قانون ہے اور آخر میں قانون غضب کا اطلاق ہوتا ہے۔  

انسان پر جو مشکلات آتی ہیں ان  کا ایک سبب قانون ارتقا ہے یعنی Law of Evolution  ۔ یہ ڈارون کا قانون ارتقا نہیں بلکہ خدا کا قانو ن ارتقا ہے کے جس کے ذریعے وہ بندوں سے کھوٹ اور میل دور کرکے ان کا تزکیہ کرنا چاہتا اور ان کی شخصیت کو پروان چڑھانا چاہتا ہے ۔ جس طرح ایک بچے کو اگلی کلاس میں ڈالنے سے قبل پڑھایا جاتا اور پھر امتحان لیا جاتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اگلے درجے میں ڈالنے کے لیے آزمائش سے گذار اجاتا ہے۔ 

دوسرا قانون  جزا و سزا کا قانون  یعنی Law of Retribution  ہے۔ اللہ تعالی بہت سے اچھائیوں اور برائیوں کا بدلہ اسی دنیا میں دیتے ہیں۔ ان میں سرفہرست مادی قوانین ہیں جیسے ایک شخص محنت کرے گا تو روزی کمائے گا نہیں کرے گا تو بھوکا رہے گا۔ چنانچہ انسان اپنے بعض اعمال کی مکمل یا جزوی سزا اسی دنیا میں بھگت لیتا ہے۔ تم لوگ  جب مشکلات کو دیکھتے ہو انسانوں کی طرح یہ سمجھ لیتے ہو کہ خدا ناراض ہے، وہ غضب ناک ہوگیا ہے۔ نہیں ایسا نہیں۔ انسان پر جو مشکل آئی وہ قانون جزا و سزا کے اطلاق کی بنا پر آئی ہوتی ہے اور اس کا مداوا باآسانی اس کوتاہی کو دور کرکے کیا جاسکتا ہے۔"

" قانون غضبLaw of Destruction  آخری اسٹیج ہے۔ اس کے بعد کچھ نہیں بچتا،  سب کچھ تہس نہس ہوجاتا ہے، بستیاں اجڑ جاتی ہیں، کھلیان ختم ہوجاتے ، آسمان آگ برساتا اورزمین تنگ  ہوجاتی ہے۔ یہی وہ ناراضگی ہے جس پر خدا کی جانب سے آنکھوں ، دلوں اور کانوں پر مہر لگادی جاتی ہے۔ یہی وہ خدا کی ناراضگی ہے کہ جو جس فرد پر پڑتی ہے  اس کی زندگی کے اس حصے کو برباد کردیتی ہے۔ "

" یہ غضب کس طرح  نازل ہوتا ہے حضور؟ اس کی کچھ تفصیلات سے آگاہ کریں تاکہ ہم اسی  علم کے مطابق منصوبہ بندی کریں۔"ایک منسٹر نے استفسار کیا

" دیکھو! ایک انسان  کی شخصیت ایک سفید  اور خوبصورت نور  یعنی روشنی کی مانند  ہے جس میں رحمانی صفات موجود ہیں۔ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس نور پر سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے۔ اگر تو وہ اس کو توبہ سے دھوڈالے تو نور دوبارہ  نمایاں ہوجاتا ہے اور اگر نہ دھوئے  اور مزید گناہ کرتا رہے تو اس نور پر سیاہی غالب آنے لگ جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی آزمائش کے قانون کے ذریعے کبھی کچھ مصیبتیں بھیجتے ہیں تاکہ وہ رجوع کرے اور اس کی سیاہی کم ہو۔ لیکن جب وہ باز نہیں آتا تو اس پر قانون جزا و سزا کا ااطلاق ہوتا ہے  اور اس کے گناہ کے عوض اسے دنیا میں  ہی جزوی یا کلی بدلہ دیا جاتا ہے تاکہ اس کا سیاہی میں لپٹا ہوا نوری وجود پاک ہوکر سامنے آجائے۔

لیکن جب ایک شخص خدا کی جانب سے بھیجی جانے والی تمام تنبیہات کو ماننے سے انکار کردیتا اور  برائیوں سے بھری زندگی نہیں چھوڑتا تو  پھر تو اس کا نور بالکل ہی ختم ہوجاتا ہے۔ اب اس کی جگہ سیاہی لے لیتی ہے۔ اب یہ ایک شیطانی وجود بن جاتا ہے۔ اب اس وجود کی اصلاح ممکن نہیں رہتی کیونکہ گناہوں  کی سیاہی نے اسے چاروں طرف سے گھیر  لیا ہوتا ہے۔ اس سیاہی کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس کی آنکھوں پر پٹی پڑجاتی ہے اور اسے وہی دکھائی دیتا ہے جو اس کا سیاہ وجود دکھانا چاہتا ہو۔ اب وہ وہی سنتا ہے جو اس کے کالے کرتوت اسے سنانا چاہتے ہیں۔ اب وہ ایک ایسے گلاس کی مانند ہوتا ہے جو غلاظت سے لبالب بھرا ہو اور  جس میں ہدایت کا شربت انڈیلا نہیں جاسکتا۔ 

یہ عذاب کی ابتدا ہے۔ اس موقع پر اس کے لیے دنیا کے دروازے کھول دیے  جاتے، اس پر دنیاوی  نعمتیں برسنا شروع ہوجاتیں، اور وہ اپنی زندگی میں مگن ہوجاتے ہیں۔ اس شخص  کو یہ لگتا ہے کہ خدا شاید اس سے راضی ہے ۔  اسی طرح  دیکھنے والوں کو لگتا ہے  کہ شاید خدا موجود ہی نہیں ورنہ اس جیسے ظالم اور جابر کو ضرور سزادیتا۔ ان بے چاروں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ خدا کے سخت عذاب میں مبتلا ہے ۔ یہ وہ خدا کے غضب کا ایک پہلو ہے جس میں وہ بندے کو نہ صرف چھوڑ دیتا ہے بلکہ پلٹنے کے دروازے بھی بند کردیتا ہے۔"

" تو کیا جو لوگ دنیا کی زندگی اچھی گزاررہے ہیں وہ سب اسی کیٹگری میں آتے ہیں؟"ایک وزیر نے پوچھا۔ 

" ارے نہیں، ایسا نہیں۔ دنیا کی زندگی خواہ کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہو اگر خدا کی مرضی کے تابع گزاری جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس کیٹگری میں تو بے حد ظالم و جابر لوگ آتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں جان سکتا کہ کون  دل پر لگنے والے عذاب میں مبتلا ہے۔ اس طرح یہ لوگ یوں تو زند ہ ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں مردہ ہوتے ہیں"

" خدا کے غضب کا دوسرا اظہارقوموں پر ہوتا ہے۔ اس کا پہلا شکار پیغمبر کے مخاطبین ہوتے ہیں۔ جب وہ پیغمبر کا انکار جانتے بوجھتے کردیتے ہیں تو  اس کے بعد ان وجودوں کو دنیا سے فنا کردیا جاتا ہے۔  اس کی دوسری  مثا ل بنی اسرائل سے سمجھو جس نے خدا کو ناراض کیا اور خدا نے اس کو ذلت کے عذاب سے دوچار کیا اور ان پر کئی خارجی قومیں مسلط کیں۔"

" پیغمبر کی موجودگی کے باوجود بھی قانون غضب بہت دیر میں اپلائی ہوتا ہے۔ نوح علیہ السلام نو سو سال تبلیغ کرتے رہے، ان کی قوم کے لوگوں نے مذاق اڑایا، انہیں برا بھلا کہا، ان کی بات سننے سے انکار کردیا لیکن خدا نے اپنا غضب نہ ڈھایا۔ یہاں تک کہ جب اس قسم میں بالکل بھی جان باقی نہ بچی تو اس کے بعد اسے تباہ  کیا گیا۔ یہی معاملہ عاد، ثمود،قوم لوط اور دیگر اقوام کا تھا۔ "

" پتا ہے میرا مشن کیا ہے؟"

ابلیس اعظم نے پوچھا اور پھر خود ہی جواب دینے لگا۔

" میرا مشن یہ ہے کہ پوری انسانیت کو خدا کی نگاہ میں باغی قراردے دیا جائے اور معاملہ اس حد تک بڑھ جائے کہ خدا کا قانون غضب حرکت میں آئے تو اس  سب کچھ تباہ و برباد ہوجائے۔ خدا اس انسانیت کو اس کی  بغاوت پر فنا کردے۔ اس سے ظاہر ہے جو نیک لوگ گذرگئے ان کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، البتہ اس دھرتی پر مزید خدا کے نام لیوا پیدا نہیں ہوپائیں گے اور میرے حسدو انتقام کی آگ  شاید ٹھنڈی ہوجائے۔"  

سب لوگ سرجھکائے ابلیس کی تقریر سن رہے تھے۔ 

" یہی ہمارا مقصود ہے، یہی ہمارا مشن ہے کہ انسان خدا کی اتنی نافرمانی کرلے کہ خدا اس سے ناراض ہوجائے اور اس پر غضب ناک ہوجائے ۔وہ ان سے دور ہوجائے، وہ ان سے منہ موڑ لے، وہ ان کو قانون ارتقا اور قانون جزا وسزا کی بجائے قانون غضب  جکڑ لے۔ تم لوگ جو کچھ کررہے ہو وہ زیادہ تر قانون ارتقا یا قانون جزا میں آتا ہے لیکن قانون غضب کا اطلاق بہت کم ہوتا ہے ۔ کیونکہ خدا بہت شفیق ہے، وہ ماں سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے، وہ انہیں مہلت دیے جارہا ہے، وہ انہیں مسلسل نافرمانیوں پر نہیں پکڑتا، وہ انہیں پلٹنے کا موقع دے رہا ہے، تمہاری سب کوششوں اور چالوں کے باوجود وہ انہیں اب بھی بلارہا ہے۔"

تو پتا ہے دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے؟"

ابلیس اعظم نے اپنے منسٹرز کی جانب نگاہ دوڑائی اور جواب نہ ملنے پر خود ہی بولنے لگا۔

بے وقوف انسان یہ سمجھتا ہے کہ خدا بائی ڈیفالٹ ناراض ہےا ور اسے راضی کرنا مشکل ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا اصل میں ناراض نہیں اور اسے ناراض کرنا ہی  مشکل ترین کام ہے۔تو جان لو کہ دنیا کا سب سے مشکل کام کیا ہے؟

دنیا کا سب سے مشکل کام ہے خدا کو ناراض اور غضب ناک کرنا۔ اور جب وہ وہ غضب ناک ہوجائے تو اسے راضی کرنا دوسرا مشکل کام ہے۔"

" یہ کام کس طرح ہوگا اے عظیم شیطان؟" چوبدار نے پوچھا

" یہ کام  کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی ہے، انسان کو قانون غضب کے نرغے میں لانا ہے اور یہ کام موت سے پہلے کرنا ہے کیونکہ موت کے بعد ہمیں نہیں پتا کیا ہونے والاہے۔ ایک ایک انسان کو ٹارگٹ کرنا ہے، اس کو ہر اس پہلو سے خدا کی نافرمانی پر مجبور کرنا ہے جس  سے خدا اس سے ناراض ہوجائے۔ ایک وقت آئے گا کہ ہم اپنا مقصد حاصل کرلیں گے اور زمین کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور آخرت میں بھی جہنم میں یہی لوگ ہمارے ساتھ ہونگے۔"


تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں