شکر، نعمتوں کو دوام بخشنے کا راز –اقتباس خطبہ جمعہ مسجد نبوی


شکر، نعمتوں کو دوام بخشنے کا راز –

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 16-شعبان- 1438 کا مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ بعنوان ”شکر، نعمتوں کو دوام بخشنے کا راز“ ارشاد فرمایا، جس کا اقتباس درج ذیل ہے۔

شکر گزاری راہِ فراوانی اور تقوی کے ساتھ کامیابی کی علامت بھی ہے، اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کر دیا کہ: اگر تم شکر کرو گے تو میں لازماً اور زیادہ تمہیں دوں گا اور اگر تم نا شکری کرو گے تو بیشک میرا عذاب بھی بہت سخت ہے۔[ابراہیم: 7]
ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ” اللہ تعالی ذکر کرنے والوں کو یاد رکھتا ہے، شکر کرنے والوں کو مزید نوازتا ہے اور ناشکروں کو عذاب سے دوچار کرتا ہے ” ؔمسلمانو!
تم اعلی ترین امن و امان میں عیش کر رہے ہو، تمہیں وافر رزق اور انتہائی آسودہ زندگی میسر ہے، خوشحالی اور پینے کا میٹھا پانی دستیاب ہے، حالانکہ تمہارے آس پاس کے لوگوں کو خاک میں ملانے والی فاقہ کشی اور قتل و غارت کا سامنا ہے، وہ قید و بند کی صعوبتوں سے نبرد آزما ہیں، انہیں غلام اور لونڈیاں بنایا جا رہا ہے۔
مصیبتوں اور وباؤں سے ان کا مقابلہ ہے، انہیں مہنگائی، در بدری اور تباہی در پیش ہے۔ ارد گرد نظر دوڑانے پر چیخ و پکار کرتے ہوئے بچے ، آہ و بکا کی وجہ سے گلے خراب کر لینے والی خواتین اور جنگ و جراح سے چور قومیں ہی نظر آئیں گی۔
اس لیے خوشحالی پر تکبر مت کرنا، مبادا نعمتوں کی فراوانی اور بہتات تمہیں شکرانِ نعمت سے غافل نہ کر دے؛ لہذا اللہ تعالی نے تم پر جو بھی نعمتیں کی ہیں انہیں دیکھو اور نعمتیں عطا کرنے والے کا حق پہچانو، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر کرتے ہوئے اس کے فرمانبرداروں میں شامل ہو جاؤ، نعمت کو معصیت کیلیے استعمال مت کرو، شیطان کے دھوکے میں مت آ جانا، اور نہ ہی اپنے دشمن سے دھوکا کھانا۔
تمہیں وافر رزق ،امن و امان، عافیت اور نعمتیں حاصل ہیں ان پر اِتراتے ہوئے علی الاعلان گناہ مت کرنا ۔ نعمتوں کا استعمال صحیح کرو گے تو موجودہ نعمتوں کو دوام حاصل ہو گا، بلکہ وہ نعمتیں بھی حاصل ہو جائیں گی جو ابھی تک حاصل نہیں ہوئیں!
اگر نعمت دینے کے بعد چھین لی جائے ، یا نازل ہونے کے بعد اٹھا لی جائے ، یا عزت افزائی کے بعد رسوائی کر دی جائے اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ ان نوازشوں کا شکر ادا نہیں کیا گیا، یا پھر یہ بد اعمالیوں کا نتیجہ ہوتا ہے؛ چنانچہ نعمتوں کا شکر ادا کیا جائے تو دوام پکڑتی ہیں اور اگر نا شکری کی جائے تو زوال پذیر ہو جاتی ہیں۔
اللہ تعالی کسی بھی قوم پر اپنی پکڑ اسی وقت نازل کرتا ہے جب وہ مد ہوش، دھوکے میں پڑے ہوئے اور نعمتوں میں مگن ہوتے ہیں؛ اس لیے کتنی ہی ایسی قومیں ہیں جنہیں اللہ تعالی نے فراوانی کے ساتھ رزق اور نعمتوں سے نوازا تو انہوں نے اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کو نافرمانی کیلیے استعمال کیا، انہیں حرام کاموں کا ذریعہ بنایا۔
انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اللہ تعالی کی طرف سے انہیں ملنے والی نعمتیں، ان کے بلند مقام، فضیلت، اور مرتبے کی وجہ سے ہے، حالانکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے محض استدارج تھا۔
کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں نعمتیں دے کر ڈھیل دی گئی!؟
کتنے ہی لوگ خوشامدی کا شکار ہو جاتے ہیں؟!
اور کتنے ہی لوگ ہیں جو عیب پوشی کی وجہ سے پارسا سمجھے جاتے ہیں!؟
صاحب بصیرت شخص اچھے برے میں تفریق کرنا جانتا ہے ، اسے آب اور سراب میں فرق معلوم ہوتا ہے، خالص اور ملاوٹ شدہ چیزوں کو جدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسے معلوم ہے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کالی چیز کھجور ہوتی ہے۔ ہر قسم کا پانی پیاس بجھانے والا نہیں ہوتا؛ کچھ بارش کا پانی تو کچھ شوریلی زمین کا کھارا ہوتا ہے، ماہر صرّاف کھرے اور کھوٹے سکوں کو فوری پہچان لیتا ہے: ؔ
مسلمانو!
معمولی مقدار پر بھی راضی ہونا شکر گزاروں کی امتیازی صفت ہے، وہ اللہ تعالی کی کسی نعمت کو حقیر نہیں سمجھتے چاہے نعمت کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو! کسی بھی دنیاوی چیز کا حصول ان کیلیے مشکل ہو جائے تو وہ اس سے کمتر پر قناعت کر کے راضی ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ قناعت میں عزت اور حسرت میں ذلت کے سوا کچھ نہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے نصیب اور رزق پر راضی نہیں ہوتے، وہ ہر وقت ذہنی تناؤ اور ناراضی کا شکار رہتا ہے، اس کی ہر وقت دوسروں کی عزت، دولت اور حالت پر نظر رہتی ہے، اور کسی کہنے والے نے کیا ہی خو ب کہا ہے:ؔ
"بچہ بڑا ہونا چاہتا ہے اور بڑا بچپن چاہتا ہے
بے روزگار کو ملازمت کی فکر ہے اور ملازم اپنی ملازمت پر خوش نہیں
مالدار بھی تھک ہار چکا ہے اور فقیر کا بھی یہی حال ہے
صاحب اولاد ہر وقت پریشان ہے اور بے اولاد بھی اولاد کیلیے پریشان ہے
انسان اگر ہار جائے تو افسردہ ہو جاتا ہے اور اگر جیت بھی جائے تو خوش نہیں ہوتا
انسان افسردگی میں شان و شوکت کا متلاشی ہے اور اگر مل بھی گئی تو حاصل کرنے میں کاہلی کرتا ہے

رزق اللہ تعالی نے اپنی حکمت و تدبیر کی بنیاد پر لوگوں میں تقسیم کر دیا ہے وہ لوگوں کے بارے میں زیادہ بہتر جانتا ہے، اس لیے اللہ تعالی کے دئیے ہوئے پر لوگوں سے حسد نہ کرو، انہیں جو کچھ مال و اہل ملا ہے اس کے چھن جانے کی خواہش مت کرو، بلکہ اللہ تعالی سے اپنے لیے برکت مانگو؛ کیونکہ اللہ تعالی کے خزانے ختم ہونے والے نہیں!

مال و دولت فضول خرچ کرنا، فخر، شہرت، تکبر اور گھمنڈ کیلیے اڑانا بھی شکر کے منافی ہے۔
رمضان میں لوگوں کو کھانا کھلانا، افطاری کروانا بھی بہت بڑی عبادت اور عظیم نیکی ہے، اس کا اہتمام کامیاب لوگ ہی کرتے ہیں، تاہم اس میں بھی ہم فضول خرچی سے خبردار کرتے ہیں کہ بلا ضرورت دستر خوان مت بچھائیں اور اس پر بغیر ضرورت کے کھجوریں، روٹیاں اور کھانے پینے کی چیزیں مت رکھیں، کہ آخر میں وہ بچ جائیں اور انہیں کوڑے میں پھینک دیا جائے۔
جہاں تک ممکن ہو سکے شرعی احکامات کی پابندی کرو اور اعلی ترین انداز میں نیکیاں کماؤ؛ کیونکہ اللہ تعالی اعلی اور بہترین انداز سے نیکیاں کمانے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا سمیع! یا قریب! یا مجیب!




تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں