تدبر القرآن سورۃ البقرہ نعمان علی خان حصہ-44


تدبر القرآن
 سورۃ البقرہ
 نعمان علی خان 
 حصہ-44

فإذا قرأۃ القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم 


إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ (26) 
اس آیت کے درمیانی حصہ پہ غور کریں . وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُون
"اور رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تو وہ کہتے ہیں".
 میری ذاتی رائے ہے کہ یہاں کفر سے "کفرانِ نعمت" مراد ہے، یعنی وہ لوگ جو ناشکرے تھے، وہ لوگ جو حقائق کو دیکھ کر بھی شکر گزار نہیں ہوتے کہ کس طرح اللہ تعالٰی نے اپنی روٹین سے ہٹ کر مثال دی ہے.
قرآن پاک کی بہترین مثال سورۃ النور میں ہے:
﴿ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾
اس ساری آیت کے آخر میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں :
وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ
"اللہ تعالٰی لوگوں کے فائدے کے لیے مثالیں دیتے ہیں".
 اور پھر اللہ تعالٰی مزید گہری، پرسوچ مثالوں کا اضافہ کرتے ہیں. 
وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
اللہ تعالٰی پہلے ہی ہر چیز کے بارے میں جانتے ہیں. 
اللہ تعالٰی کو تو کسی مثال کی ضرورت نہیں، ضرورت تو ہمیں ہے. اللہ تعالٰی کو عام انسانوں کی سطح پر آ کر مثال دینی پڑ رہی ہے. تا کہ لوگ بہ آسانی بات سمجھ سکیں. اسی وجہ سے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں : 
اِنَّا جَعَلۡنٰہُ قُرۡءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ
اللہ تعالٰی نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کو سمجھ سکیں.
 اللہ نے اس کتاب کو ہم سب کے لیے قابل فہم بنایا ہے. زیرِ مطالعہ آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے بات سمجھانے کے لیے وہ طریقہ اختیار کیا ہے جو ہمارے لئے مفید ترین ہے. اب کچھ لوگ ہیں کہ پھر بھی شکر گزار نہیں ہوتے اور اللہ تعالٰی کو شکایتی نظروں سے دیکھ رہے ہیں. اس سبق کو پڑھتے ہوئے شکایتی انداز اپنا رہے ہیں. 
ایسی صورت حال میں پھر ان سے بڑھ کر ناشکرا کون ہے؟ 
مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا
اللہ تعالٰی کا اس کو بطور مثال بیان کرنے سے کیا مقصود ہے؟ 
عربی کے طلباء غور کریں کہ اس ترجمے میں عموماً ایک غلطی کی جاتی ہے. "ھذا مثلاً " کا ترجمہ "ھذا المثل" کی طرح کر دیا جاتا ہے. دونوں میں بہت فرق ہے. اگر خیال نہ رکھا جائے تو ترجمہ بدل جاتا ہے. 
طلبہ اپنے استاد کے پاس آکر سوال کر سکتے ہیں،"سر! یہاں اس مثال سے کیا مراد ہے؟". یہ ایک جائز سوال ہے. مؤمن ایسے سوال پوچھ سکتے ہیں. ماذا اراد اللہ بھذا المثل؟؟ سوال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ تب ہے جب آپ کا سوالیہ انداز تضحیک آمیز ہو. آپ اپنے استاد سے غلط انداز میں بات کریں. جب آپ کا مقصد تنقید برائے تنقید ہو. مثلاً 
اس طرح کے نکتہ کو بطور مثال کیوں بیان کیا گیا ہے؟ 
اس مثال کی یہاں کیا ضرورت تھی؟
اس کا یہاں کیا مقصد ہے؟ یہاں مسئلہ "رویے" کا ہے. ہمارے مذہب میں سوال کرنا منع نہیں ہے. اپنے انداز کو بہتر رکھتے ہوئے آپ کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں. قرآن پاک بہت خاص ہے نہ صرف کلام میں بلکہ طرزِ کلام میں بھی. آپ محض سلام نہیں کہہ سکتے، ساتھ میں مسکرانا بھی ہے، اگر آپ غصیلی آواز میں سخت انداز سے "السلام علیکم" کہہ رہے ہیں، تو یہ کہیں سے بھی سلامتی کا پیغام نہ ہوا. اسی طرح اگر کسی نے حال پوچھا ہے تو جواباً بُرا سا منہ بنا کر "الحمدللہ" کہنا، کہیں سے بھی شکر گزاری نہیں کہلاتا. بھئ آپ نے اللہ کا شکر ادا کرنا ہے ذرا خوشی سے کیجئے. سلام کرتے ہوئے آپ دوسرے کو باور کرواتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ "حالتِ امن" میں ہوں. آپ کے ساتھ میرے سب معاملات درست ہیں. سلامتی ہو آپ پر. یہ ہے السلام علیکم کی اصل روح. لیکن اگر آپ کرخت لہجے میں سلام کہہ کر دروازہ پار کر گئے ہیں، تو یہ کہیں سے بھی سلامتی کا پیغام نہیں. گفتگو اور اندازِگفتگو دونوں لازم و ملزوم ہیں. جب ان اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کوئی شخص آپ کے پاس آتا ہے، کہ میں اس مثال کو سمجھ نہیں پا رہا،براہِ مہربانی مجھے ذرا اس کا مطلب سمجھا دیجیے. تو یہ ایک اچھا مثبت انداز ہے. 
تو منفی انداز کون سا ہے؟ جب سوال کرنے والا آکر کہے کہ اس مثال سے اللہ کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے یہ نکتہ کیوں اٹھایا ہے؟ 
يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا
"اس سے وہ بہت سوں کو بھٹکاتا ہے اور اسی سے وہ بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے".
ایک رائے یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اس طرح کے "طرزِکلام" سے بہت سوں کو بھٹکاتا ہے. 
ایک اور نکتہءنظر یہ ہے کہ "اس مثال" یا "اس کتاب" یعنی قرآن پاک سے اللہ تعالٰی بہت سوں کو بھٹکاتا ہے. جتنا وہ لوگ جتنا قرآن پڑھتے جاتے ہیں اُتنا ہی اُن کی نفرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے. اس کی کیا وجہ ہے؟ اسکی وجہ ان لوگوں کا غلط طرزِعمل ہے.
اور بہت سے لوگوں کو وہ اس سے ہدایت دیتا ہے. یعنی اسی قرآن کے ذریعے سے بہت سے لوگوں کو ہدایت مل رہی ہے،اور بہت سے لوگ گمراہ ہو رہے ہیں. یہ سب کس پر منحصر ہے؟ فرق کس چیز کا ہے؟ سارا فرق آپکی نظر کا ہے، اس عدسے کا ہے، جس سے آپ قرآن کو دیکھتے ہیں. سبحان اللہ.

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔


تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں