تدبر القرآن --- سورہ الناس ۔۔۔ نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ دوم

تدبر القرآن
سورہ الناس
نعمان علی خان
حصہ دوم

آج ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں لوگ خود کو اپنا مالک، بادشاہ، اور خدا مانتے ہیں، وہ اپنے حلال اور حرام کا تعین خود کرتے ہیں۔ اپنے اصول خود بناتے ہیں۔
"کیا تم نے اس کو دیکھا جس نے اپنے نفس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے، اور اللہ نے اس کے علم کے باعث اسے گمراہ کردیا ہے اور اس کی سماعت اور اس کے دل پہ مہر لگادی ہے، اور آنکھوں پہ پردہ ہے؟ تو اسے اللہ کے سوا کون ہدایت دے گا؟ تو کیا تم غور نہیں کروگے؟" (الجاثیہ-۴۵-۲۳)
ہم اس دور میں رہ رہے ہیں جہاں ہمارا رہنا ایسی سوسائٹی میں ہوتا ہے جس میں لوگ مِنی فرعون بنے ہوئے ہیں۔ یہ انا اس کی جڑ ہے۔ 
اور اسی لیے اللہ فرماتے ہیں کہ 
قُل اعوذ برب الناس
یہ کہنا آپ کو عاجز بنائے گا۔
لفظ الناس کے مختلف معنی ہیں، اس کا ایک روٹ لفظ *الناسیہ* بھی ہے۔ جس کے معنی ہیں "بھول جانے والا"
لوگ اپنے رب سے کیا گیا وعدہ بھول گئے ہیں، اس لیے بھی انہیں ناس/انسان کہا جاتا ہے جو کہ الناسیہ سے نکلتا ہے جس کے معنی بھول جانا کے ہیں۔
اور ایک طاقت جو اللہ نے شیطان کو دے رکھی ہے وہ یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کو بھلا دیتا ہے 
اور جو سب سے بڑی چیز ہم انسان بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔

4- *مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ٭
اس شیطان کے شر سے جو وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے۔

سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:
شیطان انسان کے دل کے عین اوپر بسیرا کرلیتا ہے، جب انسان بھول جاتا ہے اور لاپرواہ ہوجاتا ہے، تو شیطان اس کے دل میں داخل ہوجاتا ہے 
مگر جب انسان اللہ کو یاد کرتا ہے۔ تو شیطان چلاجاتا ہے/ پھر دوبارہ کوشش کرتا ہے/ پیچھے ہٹ جاتا ہے
وہ ہم سے بھی زیادہ محنت کر رہا ہے کہ کسی طرح ہمیں جہنم پہنچادے، اس لیے ہمیں بھی ہر طرح سے کوشش کرنی چاہیے اللہ کو یاد کرنے کی۔
ایک مثال سے ایک بات آپ کو سمجھاتا ہوں: 
شیطان لوگوں کو بہکاتا ہے کہ وہ غصہ کریں، کیونکہ غصہ تکبر/انا کا دوسرا روپ ہے۔
جب ہمیں غصہ آئے تو ہمیں کہنا چاہیے "اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم"
اگر ایک مومن غصے میں آجائے اور اپنے تکبر کے باعث اللہ کی پناہ نہ مانگے تو شیطان جیت جاتا ہے 
جب ہم خود میں عاجزی لا کر اللہ کو یاد کریں گے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں محنت کرنا ہوگی۔
من شر الوسواس الخناس
من: اس سے
شر: خیر کے متضاد ہے۔ ایک ایسی برائی جس سے آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 
شرارا: ایک آگ کا شعلہ جو آگ سے نکل کر آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
الوسواس: وسوسہ، کان میں بات ڈالنا، ایسی بات جس میں شر ہو
شیطان ہر وقت ہمارے کانوں میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے، پھر رُکتا ہے، اور پھر شروع ہوجاتا ہے۔ اور یہ عمل چلتا رہتا ہے۔
اس آیت میں ہم اس سے پناہ مانگ رہے ہیں جو ایسے وسوسے ہمارے کانوں میں ڈالتا ہے۔ 
صرف وسوسے سے نہیں تاکہ ہم ہر برائی سے محفوظ رہیں۔
الخناس: جو کوشش کرتا ہے/پیچھے ہٹتا ہے بار بار
یعنی وہ بار بار کوشش کرتا ہے آپ کے دل تک پہنچنے کی، مگر جب آپ اللہ کو یاد کرتے ہیں تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ 
اور وہ یہ عمل دہراتا رہتا ہے۔
اللہ کے آگے عاجز بن کر اس کی اطاعت میں زندگی گزارنا اس شیطان کے خلاف ہتھیار ہے ہمارا۔ اس لیے اللہ کہتے ہیں ہمیں کہ عاجزی اختیار کرو۔ 
ہم آج دیکھتے ہیں کہ لوگوں پہ جن کا آجانا یا ڈپریشن کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے جب کہ پہلے لوگوں میں اللہ پہ ایمان اور یقین زیادہ ہوا کرتا تھا یہ اسی لیے ہے کہ ہم اللہ کو یاد نہیں کرتے۔۔


اَلَّـذِىْ يُوَسْوِسُ فِىْ صُدُوْرِ النَّاسِ (5)
یہاں پھر اسی بات کو دہرایا گیا ہے کہ اس سے پناہ مانگی جائے جو ہمارے سینوں میں بار بار وسوسے ڈالتا ہے اور ڈالتا رہے گا 
ایسا کوئی لمحہ نہیں ہوگا جب وہ وسوسہ نہیں ڈالے گا سوائے اس وقت کہ جس میں آپ اعوذ باللہ پڑھیں۔
فی الصدور الی الناس 
وہ سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔
عبدالرحمن القلانی نے اپنی تفسیر میں کہا کہ:
صدر، ایک جگہ ہے۔
دل (قلب) ایک چیز ہے۔
صدر کو عموماً ہم "سینہ" کہتے ہیں۔ صدور اس کی جمع ہے۔ 
وسوسہ سینے میں ڈالنا، دل میں ڈالنے سے مختلف ہوتا ہے۔
اسے ایک مثال سے سمجھاتا ہوں۔
دل ایک قلعے کی طرح ہے۔ قلعے کی چاروں اطراف میدان ہے۔ 
شیطان میدان میں موجود ہے، اور قلعے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن قلعہ مقفل ہے۔ 
وہ اندر تب ہی داخل ہوسکتا ہے جب آپ خود اس کے لیے دروازہ کھول دیں گے۔ اگر آپ عاجزی سے اللہ کی پناہ مانگیں گے(اعوذ باللہ) پڑھیں گے تو وہ قلعے سے پیچھے ہٹ جائے گا، اور دوبارہ داخل ہونے کا موقع تلاش کرے گا۔ 
لیکن اگر آپ اسے داخل ہونے دیں گے تو وہ آپ کو اللہ سے دور کردے گا۔
وہ لوگ جن کے دلوں میں ایمان ہوتا ہے۔انہیں اللہ کی یاد سے محبت ہوتی ہے:
"اللہ نے عزیز بنادیا تمہارے لیے ایمان کو اور پسندیدہ بنادیا اسکو تمہارے دلوں میں اور بیزار کردیا تمکو کفر اور گناہ اور نافرمانی سے۔" (الحجرات)
آپ کے لیے ایمان خوبصورت بنادیا جاتا ہے۔
لیکن اگر شیطان دل میں داخل ہوجائے: 
"اور جب آراستہ کر دکھائے انکو شیطان نے انکے اعمال" (الانفال)
جب اللہ سے محبت نہیں کی جاتی، اسے یاد نہیں کیا جاتا، تو کچھ اور ہمارے لیے محبوب ہوجاتا ہے۔ 
برے اعمال خوبصورت لگنے لگتے ہیں۔
اگر تو شیطان آپ کے دل میں داخل نہیں ہوا تو نیک کام ہی آپ کو خوبصورت لگیں گے۔ اور بُرے اعمال آپ کو قابل نفرت لگیں گے۔
پر اگر، شیطان آپ کے دل میں داخل ہوجائے تو بُرے کام آپ کو اچھے لگیں گے، اور نیک کام سے آپ تھکنے لگیں گے۔
یہ اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ اس نے فرمایا ہے کہ شیطان دل میں نہیں سینے میں وسوسے ڈالتا ہے۔ یعنی ہم اللہ کی پناہ کی امید رکھ سکتے ہیں۔

مِنَ الْجِنَّـةِ وَالنَّاسِ (6)
اللہ تعالی نے پہلے "جن" کا ذکر کیا پھر "انسان" کا۔

سورہ الانعام میں اللہ نے پہلے انسان کا ذکر کیا تھا اور پھر جن کا۔
اس سورہ میں جنات کا ذکر پہلے کیا کیونکہ وسوسہ (سرگوشیاں) میں مرکزی کردار جن ادا کرتے ہیں۔ /جن کا ہوتا ہے۔
وسوسے کے عمل کا آغاز سب سے پہلے جنات سے ہی ہوا تھا، اور اگر انسان وسوسے ڈالیں تو وہ کسی جن/شیطان کی نقل کر رہے ہوتے ہیں
ابلیس اپنا وسوسہ جن اور انسانوں کےذریعے ڈال سکتا ہے۔ اور خاص طور پرغیر مسلموں کے ذریعے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جنات اور شیاطین کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین!!

استاد نعمان علی خان


تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں