تدبر القرآن۔۔۔۔۔ سورۃ الناس ۔۔۔۔ نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ اول


تدبر القرآن
سورۃ الناس
نعمان علی خان
حصہ اول
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

*سورہ الناس*

قُل اَعُوْذُ بِرٓبِّ النّٓاس۰

*قُلْ* ( کہو )

اللہ چاہتے ہیں کہ ہم انسان خود اپنی زبان سے اپنی کمزوریوں کا اعلان کریں۔ سو وہ چاہتے ہیں کہ ہم کہیں کہ ہم کمزور ہیں، بےسہارا ہیں، ہمیں مدد کی ضرورت ہے اس خدا سے جو سب سے بڑا ہے۔
اللہ چاہتے ہیں کہ ہم عاجزی اختیار کریں، اپنی انا کو مار ڈالیں، اور اللہ سے کہیں، اس سے مانگیں۔

"قُل" کہنا بھی اللہ کا ایک حکم ہے۔ سو جب ہم اس پہ عمل کرتے ہیں تو ہم اللہ کا حکم مان رہے ہوتے ہیں۔

اور ایک بات یاد رکھیں، اگر آپ اللہ کی مدد چاہتے ہیں تو اس کے حکم مانا کریں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی مدد کرے جب کہ آپ اس کی نافرمانی میں مصروف ہیں؟

قُل۔ کہو (اے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم)
یہ خاص طور پر نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے کہا گیا تھا اور عام طور پر ہم سب انسانوں کے لیے۔

*اَعُوْذُ بِرٓبِّ النّٓاس* : میں عاجزی سے، پورے اخلاص سے رب کی پناہ مانگتا ہوں جو انسانوں کا رب ہے

الناس کیوں کہا گیا؟
کیونکہ اس سورت میں انسانوں کو شیطان سے اللہ کی پناہ کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے وہ کہہ رہے ہیں کہ میں پناہ چاہتا ہوں برائی کے خلاف اس سے جس کی طاقت ہر انسان کے معاملے پہ غالب ہے۔

رب کا معنی ہے جس کے پاس تمام ملکیت ہے۔ جو سردار ہے۔ ساری اتھارٹی اسی کی ہے۔ جس نے ہمیں بنایا اور ہمارا خیال رکھا۔ اس کا رب ہونا ہم سب کو غلام بنادیتا ہے۔

۲- مَلِکَ النَّاس

جو انسانوں کا بادشاہ ہے

۳- اِلٰہِ النَّاس

جو انسانوں کا خدا ہے

اللہ تعالی نے *الناس* تین دفعہ دہرایا ہے۔
جب کہ یہ سب ایک ہی ساتھ بھی کہا جاسکتا تھا۔ تو پھر اللہ نے ایسا کیوں فرمایا؟

پہلے رب استعمال ہوا:
۱- وہ رب ہے، ہمارا خیال بھی رکھتا ہے، ہمیں عطا بھی کرتا ہے
ایک غلام ضرورت کے وقت اپنے سردار کے پاس جاتا ہے
اگر سردار مدد نہ کرسکے تو وہ اس کے پاس جاتا ہے جس کے پاس اتھارٹی ہو اور وہ ہوگی *ملک* کے پاس

پھر ملک استعمال ہوا:
۲- بادشاہ ملک۔ گورنمنٹ
اگر بادشاہ بھی آپ کی مدد نہ کر سکے تو آپ کس سے رجوع کرتے ہو؟
خدا سے۔

پھر الٰہ استعمال ہوا:
۳- خدا
جو رب ہے، ملک ہے اور الہ ہے۔

اس لیے تینوں کو الگ کر کے بیان کیا گیا ہے کہ انسانوں کے رب کے پاس یہ سب ہے۔

ایک اور بات یہاں نوٹ کرتے جائیں کہ آج لوگ جب مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو باس کے پاس جاتے ہیں، پھر کسی اتھارٹی کے پاس، پھر گورنمنٹ اور آخر میں خدا۔
اللہ ہمیں بتارہے ہیں کہ وہ ہر ایک پہ غالب ہے۔ عقلمند وہی ہے جو سب ہے پہلے خدا سے رجوع کرتا ہے۔ سو ہمیں اسی کی طرف جانا چاہیے۔
وہی مسبب الاسباب ہے۔

تکبر کا مرض:

شروع میں بتایا گیا تھا کہ اس سورت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہم عاجزی اختیار کریں۔ اللہ سے مانگیں۔
شیطان کی سب سے بڑی غلطی اس کا تکبر تھا۔ اور وہ اپنے وسوسے کے ذریعے یہی چیز ہم میں بھی ڈالنا چاہتا ہے۔ اور فرعون کو بھی اس کا تکبر ہی لے ڈوبا تھا۔

جاری ہے۔۔۔
نعمان علی خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں