ہم قیدی ہیں نفرت کے


میری پلکوں پہ آنسو ہیں ..
میرے دل میں ندامت ہے ..
نہیں تجھ سے گِلہ کوئی ..
مگر خود سے شکایت ہے ..
نہ پہلے کیوں سمجھ پایا ..
کہ پہلے بھی عنایت تھی ..
یہ کیسی آزمائش تھی ..

محمد ﷺ کی محبت میں ..
کُل عالم کی نُمائش تھی ..

نبی پردہ, خود با پردہ ..
تیرے جلوے کی خواہش تھی ..
رُخِ انور مدینے میں ..
خُدا کی ہی ستائش تھی ..
کیا خیرہ زمانے کو ..
محمد ﷺ بات کرتے تھے ..
تھا تھمتا ہر قدم دیکھو ..
میرے آقا ﷺ جو چلتے تھے ..
جھُکے جاتے تھے سب کے دل ..
میرے آقا ﷺ جو تکتے تھے ..

ہمیں بھی ہو عطا مولا ..
وہ پہلی سانس اُلفت کی ..
ہمیں وہ جام دے دے نا ..
قسم تجھ کو محبت کی ..

یہیں پر ہیں, وہ خود ہی ہیں ..
تبھی فرش و فلک بھی ہیں ..
تبھی کعبہ, تبھی قبلہ ..
تبھی شام و شفق بھی ہیں ..

میرے آقا گزارش ہے ..
ہوئے بنجر سبھی منظر ..
بس اِک جلوے کی خواہش ہے ..
بدل دو نا کبھی آ کر ..
یہ اُمّت خود سے خائف ہے ..
دلِ مُردہ جگا دو نا ..
ہمیں ہم سے مِلا دو نا ..
کہ ہم قیدی ہیں نفرت کے ..
ہمیں اُلفت سِکھا دو نا ..

.. کلام: محمد کامران احمد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں