تدبر القرآن ۔۔۔ سورۃ البقرہ ۔۔۔ نعمان علی خان ۔۔ حصہ-31

تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ-31

یہاں میں آپ کا دھیان لسانیات کے ماہر ایک عالم 'باسم صالح' کی طرف دلانا چاہتا ہوں جن کا کام انتہائی قابل ذکر ہے. انہوں نے قرآن کے معجزات پر عربی اور انگلش دونوں میں کتابیں لکھیں ہیں. یہاں ان کے ذکر کرنے کا مقصد ان کا وہ کام ہے جہاں انہوں نے رسول صلی الله علیہ وسلم کی حدیث کے موضوع پر مکمل مواد جمع کیا جن میں صحیح، ضعیف، حسن ہر سند کی حدیث شامل ہے. پھر اس مجموعہ کا انہوں نے لسانی تجزیہ کیا یہ جاننے کے لیے کہ کسی بھی مخصوص انسان کی گفتگو کے انداز میں کون سے اتار چڑھاﺅ ہوتے ہیں. جیسے کہ میں الفاظ so cool کا بہت استعمال کرتا ہوں. رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا بھی بات چیت کا اپنا ذاتی طریقہ تھا جو ہزاروں، لاکھوں احادیث کی مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے. تو ان عالم نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بات چیت کے انداز کا موازنہ قرآن پاک کے اندازِ کلام سے کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ قرآن پاک اسم، فعل، حروف جار، بیان محاورہ کو ایسے استعمال کرتا ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی نہیں کیا. حتی کی عربوں کی تاریخ میں بھی کہیں ایسا اندازِ کلام نہیں پایا گیا.
اگر صرف سورہ فاتحہ کو ہی دیکھیں تو الفاظ کے اٹھاون ایسے مجموعے درج ہیں جو عربوں نے کبھی بھی استعمال نہیں کیے. جیسے کہ

*غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ*

اس مجموعےجو دو الفاظ استعمال کیے گئے *غیر* اور *ولا*. عربی زبان کی کتنی ہی پرانی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یا آپ صلی الله علیہ وسلم کی تمام کی تمام احادیث کو دیکھ لیں، آپ کو ہمیشہ *لا ، ولا* ، *لیس، ولا*، *ما، ولا*، *غیر،و غیر*، *غیرہ، او* کے الفاظ ہے ایک ساتھ نظر آئیں گے. آپ کو الفاظ *غیر اور لا* کبھی ایک ساتھ کہیں نہیں ملیں گے. ایسا مجموعہ الفاظ بس قرآن میں سورہ فاتحہ میں ہی موجود ہے. عربوں کو اس انداز زبان کی سمجھ بھی آتی ہے اور وہ حیران بھی ہوتے ہیں کہ ایسے تو کوئی کلام نہیں کرتا. 

ایک اور ایسی مثال آپ کو پیش کرتا ہوں جس پر غور کریں تو دماغ جھنجھنا جاتا ہے. یہ لفط *کان* کا قرآن میں استعمال ہے. عربی زبان میں ہمیشہ سے *کان* کا مطلب *تھا* رہا ہے. مگر قرآن میں لفظ *کان* کا مطلب *ہے* بھی استعمال کیا گیا ہے. اور کمال یہی ہے کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا.

*وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا*
الله پاک ہمیشہ سے انتہائی معاف کرنے والا، رحم کرنے والا رہا ہے اور رہے گا. 

*کَانَ* جس کا ہمیشہ سے مطلب ماضی میں لیا جاتا تھا قرآن پاک نے ایک سو نوے سے زائد بار اسے حال کے لیے استعمال کیا ہے. یہ عربوں کی لیے بالکل ہی نئی بات تھی. 

رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی احادیث میں بھی لفظ *کَانَ* کا استعمال ہزاروں بار کیا گیا مگر ایک بار بھی اس سے مراد حال کا معنی نہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی قرآن کا کوئی کلمہ اپنی بات چیت میں استعمال نہیں کیا حتی کہ لفظ *کَانَ* کا بھی وہی استعمال کیا جو عام عرب کرتے تھے. دوسرے الفاظ میں یہ مصنفی اعزاز کا معاملہ ہے جو دونوں صورتوں میں بالکل الگ ہے. سبحان الله 

اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ حدیث سے مراد یہاں یہی تھا "بالکل نیا"۔ جو قرآن کا طرز تخاطب ہے اور جس کی مثال پہلے کہیں نہیں ملتی. 

استاد نعمان علی خان.
جاری ہے....

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں