تدبر القرآن ۔۔۔ سورۃ البقرہ ۔۔۔ نعمان علی خان ۔۔ حصہ- 28

تدبر القرآن
سورۃ البقرہ
نعمان علی خان
حصہ- 28

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

میں پہلے ہی تصویر کھینچ چکا ہوں کہ ہمارا اللہ کے ساتھ پہلا رشتہ، "رب اور عبد" کا ہے۔ اور اس رشتے کی بنیاد محبت ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ لوگ اللہ کے ساتھ حریف بنا لیتے ہیں، شرک کرتے ہیں اللہ کے ساتھ ۔ میری نظر میں جب ہم پیسے سے محبت کرتے ہیں تو پیسہ اللہ کا حریف بن جاتا ہے۔ بعض دفعہ ہوس حریف بن جاتی ہے اور بعض اوقات شہرت ہمیں شرک کی طرف دھکیل دیتی ہے. بہت ذیادہ خود پسندی بھی حریف بن سکتی ہے اور بعض اوقات فخروغرور بھی حریف بن جاتا ہے۔ کبھی آپ اپنے خاندان کو اللہ پر فوقیت دے دیتے ہیں اور خاندان کی خاطر اللہ کی نافرمانی کرنے پہ تیار ہو جاتے ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں یہ تمام شرکاء /حریف ہمارے دل میں رہتے ہیں. اللہ عزوجل فرماتے ہیں کہ دیکھو ان پھلوں کو جو میں نے عطا کیے ۔ اس خوراک کو دیکھو جو میں نے عطا کی ۔ اور دیکھو ان چیزوں کو جو میں نے اپنی رحمت سے تمہیں مہیا کیں۔ اور اب سوچو کہ تمہیں کیوں نہیں کرنا چاہیے اللہ کے ساتھ شرک، کیوں اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی چاہیے ۔
*اور آپ بہتر جانتے ہیں یہ علم، علمِ وحی نہیں ہے بعض دفعہ علم، سائنسی علم ، پچھلی آسمانی کتابوں کا علم ، قدیم زبانوں کا علم ، ان پر بھی مشتمل ہوتا ہے، یہ تمام علوم اپنی جگہ لیکن ایک علم وہ ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا اور آپ یقیناً تسلیم کرتے ہیں کہ آپ جو کچھ جانتے ہیں وہ اللہ نے ہی آپ کو سکھایا ہے. اللہ نے آپ کو کیا کچھ عطا کیا ہے۔ عربی زبان کے علم نے آپ کو یہ سوچنے اور ثابت کرنے کے قابل بنایا ہے کہ آپ کو صرف اللہ کی طرف ہی کیوں لوٹنا چاہیے ؟ وہ جو تمہارا رب ہے، جس نے نہ صرف تمہیں بنایا بلکہ نہایت محبت سے تمہیں تخلیق کیا، اسی لیے آپ کو اللہ ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
پھر آگے اللہ تعالٰی علم الغیب کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ کہ اگر تم کسی بھی قسم کے شک و شبہ کا شکار ہو تو لفظ *شبہ* دو بار آیا ہے۔ مثلاً *ذلک الکتاب لاریب فیہ* اور اب اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی شک و شبہ باقی نہ رہ جائے ۔ جو بھی کچھ اس کتاب میں ہے. لیکن پھر بھی کوئی بھی، کسی قسم کی بھی گنجائش نہیں اس میں شک کی۔ اگر تمہیں کسی بھی قسم کا شبہ ہے، اس کے بارے میں جو کچھ بھی ہم نے نازل کیا اپنے غلاموں کیلئے، تو جان لو کہ قرآن میں کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں. اللہ کہتے ہیں انسانیت کہتی تھی کہ تمہیں غلام بن جانا چاہیے۔ اور تمہارے بیچ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ بس یہ وہ وقت تھا جب رسول اللہ کو عبد کہا گیا ۔ اور درحقیقت قرآن اتنا خوبصورت ہے. وہ نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے بلکہ ہمارے لئے بھی سراپا ہدایت و نور ہے۔ لیکن قرآن میں جہاں معراج کا ذکر ہے، وہاں رسول اللہ کو عبد کہا گیا۔ اور جب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و السلام سدرۃ المنتہیٰ پر گئے وہاں جہاں کوئی انسان کوئی مخلوق نہیں جا سکتی سب سے اونچے مقام پر. تب بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عبد کہا گیا. حتیٰ کہ جبرائیل علیہ اسلام نے کہا میں یہاں سے آگے نہیں جاسکتا صرف آپ جاسکتے ہیں۔ وہ وہاں گئے اور اللہ نے انہیں وہاں عبد کہا۔
اور اللہ عزوجل نے انہیں لیا آدھی رات کو اور سفرِ معراج شروع ہوا. قرآن میں وہاں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جہاں مقدس یا اعلی ترین مقامات کا ذکر ہے. جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہاں معراج پہ مخاطب کیا گیا تو عبد کا لفظ ہی استعمال کیا گیا . اور یہ ہمارے دین کا نہایت اہم تصور ہے، جسے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے . اس زندگی میں غلام سے نچلا کوئی اور درجہ نہیں، اس دنیا میں اگر کوئی شخص معمولی سی ملازمت کرتا ہے، تو اسے بہت ادنیٰ سمجھا جاتا ہے، اور اگر کوئی انسان کسی عام سے شخص کا غلام ہے، تو اسے نہایت کم تر انسان سے بھی حقیر تصور کیا جاتا ہے، جب کوئی کہتا ہے کہ میں غلام ہوں تو انسان کے لیے غلام سے ذیادہ نچلا کوئی طرزِ تخاطب سوچ نہیں پائیں گے. غلام سے نیچے کوئی درجہ نہیں ہے ..اور اللہ عزوجل نے یہ لفظ استعمال کیا جو سب سے ادنی ہے، غلام سے زیادہ ادنی کوئی نہیں انسانی معاشرے میں، لوگ غلاموں کا مذاق اڑاتے ہیں ، یہاں تک کے اس لفظ کو اپنے لیے شرمندگی گردانتے ہیں، ہمارے معاشرے کی اس لفظ کے پیچھے ایک تاریخ ہے، اور جب یہی غلامی اللہ کے توسط سے آتی ہے تو اس سے زیادہ اعلی و ارفع کوئی رتبہ نہیں. کہ آپ اللہ کے غلام ہوں. عبداللہ سے بڑا کوئی رتبہ نہیں ہے. سبحان اللہ. جانتے ہیں کہ ایک قطعی تضحیک زدہ و کمتر مقام، دینِ اسلام کے باعث قابلِ فخر کیسے بن جاتا ہے ؟ کیونکہ جب میں غلام ہوں تو مجھے کسی چیز کی پروا نہیں، سوائے اس کے کہ میں اپنے مالک کو خوش کروں ، اور جب میں اللہ کی غلامی قبول کر لوں تو میرا معاشرہ، میری تہذیب کیا سوچتی ہے؟ حکومت کیا سوچتی ہے؟ میڈیا کیا کہتا ہے؟ دوست کیا سوچتے ہیں، ان میں سے کوئی چیز اہمیت نہیں رکھتی. مجھے اس میں سے کسی کو خوش کرنے کی ضرورت نہیں. مجھے صرف اللہ کو خوش کرنے کی ضرورت ہے. مجھے مزید دوسروں کی غلامی کرنے کی ضرورت نہیں رہی، نہ فیشن کا اور نہ میں مزید کسی تہذیب کا غلام ہوں، میں تو آزاد ہوچکا ہوں ہر قسم کی غلامی سے. کیونکہ میں نے اللہ کی غلامی قبول کرلی ہے اور یہ ایک بنیادی صورت ہے آزادی کی. اگر آپ اللہ کے غلام نہیں ہیں. تو مجھے یقین ہے کہ پھر آپ کسی اور چیز کے غلام ہیں. صرف ایک طریقہ سے آپ ہر قسم کی غلامی سے آزادی حاصل کر سکتے ہیں اگر آپ حقیقی صورت میں اللہ کے غلام بن جائیں.

نعمان علی خان

جاری ہے ۔۔۔۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں