تدبرِ قرآن ۔۔۔ سورۃ البقرۃ ۔۔۔۔ نعمان علی خان ۔۔۔ حصہ- 23

تدبر قرآن--- سورۃ البقرہ
از
نعمان علی خان
حصہ- 23
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ﴿٢٢﴾ وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢٣﴾

اسلام و علیکم ورحمة و برکاتہ
ان شاء اللہ آج ہم ان تیں آیات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے. مگر اس سے پہلے میں ان دردناک واقعات کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا جو آجکل میں امت مسلمہ کو درپیش ہیں. ان واقعات نے نہ صرف ہمارے ملک بلکہ پوری مسلم اُمہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے. ایک بات جو سب سے پہلے واضح ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اسلام میں انسانی جان کی حرمت کے بارے میں کوئی دو رائے نہیں. انسانی جان کی حرمت غیر مشروط ہے بنا کسی استثناء کے.
ہمارے کچھ آئمہ اور علماء کرام نے سوشل میڈیا پر اس بارے میں آواز بھی آٹھائی ہے کہ ہم ایسے دہشت گردی کے غیر انسانی فعل کے بالکل خلاف ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے خلاف ہو کیونکہ ہر انسان کو اس کی زندگی جینے کا پورا حق ہے. پر ان باتوں کے جواب میں کچھ نام نہاد مسلمانوں نے ضرور یہ مدعا بنایا کہ ایسا کیسے کہا جا سکتا ہے، ان لوگوں کو تو مار دینا چاہیے وغیرہ. ان سب چیزوں کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ ہمیں دو باتوں کا لازمی پتا ہونا چاہیے.
سامعین دو طرح کے ہوتے ہیں. ایک غیر مسلم جو سوشل میڈیا پر ہم مسلمانوں کا اس موقع پر ردعمل جاننا اور دیکھنا چاہتے ہیں. اور دوسرے خود مسلمان ہیں جو اکثر ایسی کوئی تشفی بخش بات کرنا چاہتے ہیں جس سے اُمہ کا دکھ کچھ کم ہو اور انہیں احساس ہو کہ وہ ان کے ساتھ ہیں. مگر اس سب میں اسلام کو کسی نہ کسی طرح ان سب واقعات کا موجب بنا کر اس پر بحث کی جاتی ہے. جب غیر مسلم ہم مسلمانوں سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہماری کیا رائے ہے؟ تو چند لوگ ساکھ بنا کر رکھنے کے چکر میں اکثر ایسے جواب دے جاتے ہیں جو دین کی بجائے  سیاسی موافقت زیادہ رکھتے ہیں.
ہمیں ہر صورت یہ یاد رکھنا چاہیے کہ الله پاک کا دین کسی کے لیے نہیں بدلتا. یہ دین الله کی طرف سے ہے تو جو کوئی بھی اس کے خلاف جاتا ہے خواہ کوئی بھی ہو وہ ایک مجرم ہے اور اس بارے میں تو دین میں کسی بحث کی گنجائش ہی نہیں . اس بارے میں بس وہی مباحثہ میں پڑ سکتے ہیں جنہیں دین کی بنیادی تعلیمات بھی نہیں معلوم. اس لیے ایسے لوگ کسی بھی صورت میں الله کی کتاب کے طالب علم ہو ہی نہیں سکتے. آپ قرآن کے طالب ہو کر ایسا فتویٰ تو بالکل بھی نہیں دے سکتے کہ فلاں گناہ میں مبتلا لوگوں کو قتل کرنا جائز ہے. ایسا قرآن کے پڑھنے والے بنا علم کے بالکل بھی نہیں سوچ سکتے.
چونکہ اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور کہنا بھی چاہیے پر میں اس مدعے پر بات کرنے کے لیے مہارت نہیں رکھتا، یہ ایک بہت پیچیدہ معاملہ ہے. مگر میں آپ سے اس مسئلہ کے صرف ایک حصے پر ہی بات کر سکتا ہوں جو کہ نہایت اہم  ہے. آپ میڈیا یا سیاسی مذہبی سازشوں کسی کو بھی الزام دیں مگر جس بات کا خیال رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ بہت سے جوان مسلمان جو اپنی سابقہ زندگی پر توبہ کر کے، خود کو بہتر کرنے کے لیے اسلام کو سمجھنے کا حقیقی شوق رکھتے ہیں اور اسلام کو سمجھنے کے لیے وہ آن لائن بھی آتے ہیں کیونکہ آجکل تو انٹرنیٹ ہی معلومات حاصل کرنے کی جگہ ہے. تو ایسے لوگ جب ان گروہوں کے بارے میں پڑھتے ہیں جو اسلام کے نام پر غیرفطری انسانی قتل و غارت کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوتے ہیں اور اتنے منظم طریقے سے یہ سب ہو رہا ہے کہ ہالی وڈ بھی پیچھے رہ جائے اور ان لوگوں کا تو مطمع نظر ہی ایسے مسلمانوں کو اپنے پیچھے لگانا ہے جو نیا نیا اسلام کو سمجھنا شروع ہوئے ہیں، تو ایسے میں ان طابعلموں کی نظر میں اسلام کا تصور ہی یہی بن جاتا ہے جو یہ مخصوص گروہ پیش کر رہا ہے.
آپ کو بہتر طور پر سمجھانے کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ ایک جوان جو مذہبی نہیں ہوتا اور جب رمضان آتا ہو اب یا تو وہ کوئی خطبہ ایسا سن لیتا ہے یا اس کے دل کو کوئی بات چھو جاتی ہے اور وہ سوچتا ہے کہ مجھے خود کو بدلنا چاہیے، ایک اچھا مسلمان بننا چاہیے اور وہ گوگل، یوٹیوب، فیس بک وغیرہ پر اسلامی مواد ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے تو سب سے پہلے جو اسے  مواد ملتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے جو بالکل بھی اسلام کے مطابق نہیں کیونکہ مشینری ہی ایسی سیٹ کی گئی ہے کہ کوئی اسلام سے متعلق کچھ ڈھونڈے تو پہلے اسے فتنوں کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے. اب ایسے نو مسلم کو یہ مواد مل رہا ہے کہ اچھا، سچا مسلمان بننے کے لیے آپ کو جہاد کرنا ہو گا اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپ منافق ہیں اور جو اس کام سے روکیں وہ بھی منافق ہیں. ایسا میں وہ نو مسلم سوچے گا کہ اس کے ارد گرد سب کے سب منافق ہی ہیں کیونکہ وہ تو ایسے جہاد کو غلط کہتے ہیں.
تو ایسی سازشوں سے سب سے پہلے تو  مسلمانوں کو انہی کے خاندان، برادری کے خلاف کیا جاتا ہے پھر ان کے ذہنوں میں فتنہ خیز مواد بھرنا بہت آسان ہو جاتا ہے. ہمیں جلد اس بارے میں کوئی قدم اٹھانا ہو گا کیونکہ یہ اسلام کے تشخص کی جنگ ہے. اور جب وہ لوگ جو ان سازشوں کا شکار ہو جاتے ہیں، خواہ ڈپریشن کی وجہ سے یا کم ہمتی یا جو بھی وجہ ہو، تب ایسے حادثات جنم لیتے ہیں.
ایسا کیوں ہے؟ ہمیں ایک قدم پیچھے ہٹ کر اس بارے میں سوچنا ہو گا اور اس کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گا کیونکہ والله اگر آپ اور میں اس بارے میں کوئی عارضی حل سوچیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس مسلے کا کوئی حل ہے نہیں؟ ہم جانتے ہیں ایسا ایک دن میں نہیں ہو سکتا. مگر ہر دن ہم اس خوف میں ضرور جی رہے ہوتے ہیں کہ کہیں آج پھر کچھ نہ ہو جائے. ہر چند ماہ بعد کچھ نہ کچھ ایسا ہو ہی رہا ہے.
اب ہمیں اس مسلے کا ایک مستقل حل سوچنا چاہیے اور وہ حل یہ ہے کہ ہمیں نوجوانوں کا رجحان اسلام کی مثبت تعلیمات کی طرف دلانا ہے. اسلام کی وسیع، غیر معذرت خواہانہ اور مثبت سوچ کی طرف . کیونکہ قیامت تک لوگوں نے اسلام کے طرف رجوع کرنا ہی ہے یہ ایک حقیقت ہے چاہے زمان و مکان کچھ بھی ہوں. ان کے لیے ایک اہم ذریعہ میڈیا ہی ہے. اس لیے ہمیں میڈیا پر اس جنگ کو جیتنا ہے اور اس فتنہ خیزی کے خلاف مثبت اور طاقتور متبادل بھی پیش کرنا ہے جو انسانوں کو خود بھی یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ انہیں استعمال تو نہیں کیا جا رہا؟ کیونکہ سازشی عناصر کا مقصد ہی دوسروں کا آلہ کار بنانا ہوتا ہے.
میرا کئی ایسے لوگوں سے سامنا ہوا ہے جنہیں کچھ وقت لگتا ہے پر وہ سمجھ جاتے ہیں کہ انہیں اسلام کے نام پر کیسے استعمال کیا جا رہا تھا اور انہیں اس کا آحساس بھی نہیں تھا. اس لیے ہمیں اس سازش سے ہوشیار بھی رہنا ہے اور مثبت متبادل بھی پیش کرنے ہیں اور تردیدی طاقتوں کے ہاتھ بھی نہیں لگنا.
اس سب کا مطلب یہ نہیں کہ ہم فلاں گروہ یا فلاں تنظیم کی مذمت کریں کیونکہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کی مذمت میں لگے رہیں اور وہ مزید طاقتور بنتے رہیں. انہیں ہماری توجہ ہی تو چاہیے اور ایسا متبادل وہ سہار نہیں سکتے جو لوگوں کہ توجہ ان سے ہٹا دے. ایسے گروہ دوسروں کی توجہ پر ہی چلتے ہیں اور یہی سیکھ وہ اپنے ساتھیوں کو دیتے ہیں کہ دیکھنا لوگ ہماری مذمت کریں گے کیونکہ لوگ تو منافق ہیں.
ہمیں مسلم آُمہ ہونے کی حیثیت سے یہ ذمہ داری اٹھانی ہو گی. جب تک اس دین کا ایک مثبت مضبوط تعلیمی نظام بنانا ہو گا کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہو گا کمزور ذہنوں کے مالک لوگ بھٹکتے رہیں گے. اللہ پاک ہمیں دین پر استقامت اختیار کرنے کی توفیق عطا کرے آمین.
حقیقت میں ہو یہی رہا ہے کہ پوری مسلم امہُ کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے ان جرائم کی وضاحت کے لیے جو اسلام کے نام پر ہو رہے ہیں. اگرچہ ہم دوسروں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں پر ہمیں اسلام کی خاطر یہ ذمہ داری اٹھانی ہو گی کیونکہ جب دین کو ہی ذہنوں میں زہر بھرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو ہمیں کھڑا ہونا ہی ہو گا خواہ کچھ بھی ہو. ہمیں اس کے لیے بہت ہمت سے کام لینا ہو گا کیونکہ یہ ناگزیر ہو چکا ہے. الله پاک ہمیں استقامت عطا کرے آمین.  ہماری دعائیں  ان کے ساتھ ہیں جو اپنی جانوں سے گئے خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم. اللہ پاک نے ہر بنی آدم کو عزت بخشی ہے. 

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَم
نیکی، گناہ، توحید، شرک سب اپنی جگہ مگر ہم سب آدم علیہ السلام کی ہی اولاد ہیں اور جب ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی تو انہوں  نے سب انسانیت کے لیے دعا کی.
مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا
انہیں پوری امید تھی کہ پوری انسانیت کے لیے یہ جگہ ایک مرکز ہوگی. جب فرشتے لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی خبر لائے تو ابراہیم علیہ السلام نے ان لوگوں کے لیے اللہ سے سوال کیے. انہوں نے یہ نہیں فرمایا کہ "ہاں وہ لوگ تو ہیں ہی اس قابل کہ انہیں مار دیا جائے بلکہ آپ اور بھی فرشتے کیوں نہیں ساتھ لائے کہ جلد انجام کو پہنچیں وہ لوگ." انہوں نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ قرآن پاک میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام تو ان لوگوں کے لیے بحث کی .
یجادلنا فی قوم لوط
اور ہم اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں؟ تو چلیں ابراہیم علیہ السلام کے ہی بنیادی عقائد اپناتے ہیں اور سب کے لیے دعاگو اور فکرمند ہوتے ہیں نہ کہ ساری انسانیت کی مذمت کرتے پھریں. الله پاک ہماری رہنمائی فرماۓ.

اب ہم  اپنے آج کے سبق کی طرف آیت اکیس سے تئیس تک بڑھتے ہیں . الله پاک فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ﴿٢١﴾
اے پوری انسانیت اپنے مالک کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا فرمایا اور تم سے قبل کے لوگوں کو بھی تاکہ تم خود کو بچا سکو یا بہتر انسان بن جاؤ اور ان میں سے ہو جاؤ جو خود کو بچا لیتے ہیں. 

یہ آیت اپنے اندر کئی گہرے معنی رکھتی ہے. ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ آیت اب ذاتیات پر آ رہی ہے. اس سے پہلے سورہ کی تمام آیات میں کسی تیسرے شخص کی بات کی گئی ہے .

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ
وہ جو بغیر دیکھے یقین رکھتے ہیں.
وہ جو اس پر یقین رکھتے ہیں جو ان پر بھیجا گیا.
دوسرے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ وہ ایمان لائے.
وہ جو ایمان نہیں لائے.
ہر چیز کسی تیسرے شخص کے بارے میں تھی. لسانی اور فن خطابت کے لحاظ سے تیسرا شخص بہت دور ہوتا ہے. پچھلی آیات کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ واقعی بہت دور کے لوگوں کی بات لگتی ہے کیونکہ وہ دور دراز صحرا میں گم ہیں  کوئی انہیں سن نہیں سکتا یا وہ کسی گھاٹی کے کنارے کھڑے ہیں جہاں سخت تیز بارش ہے اور وہ بالکل اکیلے ہیں. اس تنہائی، فاصلے اور تیسرے انسان کے ذکر سے الله پاک اچانک موجودہ صورتحال پر آتے ہیں اور اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے بھی خطاب کرنے کی بجائے، کہ نبی  ہمیں الله پاک کا حکم سنائیں کہ

قُل يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُم
ان لوگوں کو بتا دیجیے کہ اپنے رب کی عبادت کرو.

بلکہ یہاں بلاواسطہ الله پاک آپ کو اور مجھے مخاطب کر رہے ہیں. اور صرف مسلمانوں سے ہی نہیں تمام انسانیت سے مخاطب ہیں. یہ قرآن کا بہت ہی گہرا سبق ہے. اللہ پاک پوری انسانیت سے بلا واسطہ خطاب فرما رہے ہیں. 

امام فخر الدین رازی رحمۃ علیه اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں
"جیسے ایک ایمان والے کو حکم دیا جا سکتا یہ کہ وہ اپنا ایمان مزید پختہ کرے
یا ایھا الذین امنوا! امنوا  آپ میں سے جو ایمان لائیں ہیں وہ اور ایمان لے آئیں. ایسے ہی الله پاک جو تمام انسانیت کے تخلیق کار ہیں انہیں پورا اختیار ہے کہ لوگوں کو اپنی عبادت کا حکم دیں چاہے وہ مسلمان نہ بھی ہوں."
تو یہ کتاب صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں پوری انسانیت کے لیے ہے. آپ ایسا بھی سوچ سکتے ہیں کہ مکہ میں قرآن کا جو حصہ نازل ہوا اس کا خطاب غیر مسلموں سے تھا اور قرآن کا مدنی حصہ مسلم کمیونٹی پر فوکس تھا. یہاں تعارفی آیات میں ہم نے یا یھا الذین امنوا کا طرز تخاطب ابھی تک نہیں سنا بلکہ پہلی بار جو خطاب ہو رہا ہے وہ سب سے ہے
يَا أَيُّهَا النَّاس اعْبُدُوا رَبَّكُم
 اے لوگوں اپنے پروردگار کی عبادت کرو.

کلمہ الناس کے بارے میں، میں آپ سے تین باتیں بانٹنا چاہتا ہوں.
ابن عباس رضی الله عنه اور کچھ کا یہ ماننا ہے کہ الناس جو کہ لفظ انسان کی جمع ہے اصل میں لفظ نسیان سے ماخوذ ہے. جس کا مطلب ہے بھول جانا. تو تعریفی اعتبار سے انسان بھولنے والی مخلوق ہے. الله پاک نے انسانیت کے زمین پر وجود میں آنے سے بھی پہلے ان سب سے وعدہ لیا تھا پر انسان اس وعدے کو بھول گئے.تو کہا جا رہا ہے "لوگوں جو یہ بھول چکے ہو کہ تمہارا ایک مالک ہے خود کو باور کرواؤ کہ تمہیں تمہارا وعدہ وفا کرنا ہے". یہ تو تھا لفظ الناس کا پہلا مطلب. َ
جاری ہے۔۔۔

-نعمان علی خان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں