میں تو ہوں صرف پہنچا دینے والوں میں سے !‘‘

 میں تو ہوں صرف پہنچا دینے والوں میں سے !‘‘

’ میں پناہ چاہتا ہوں الله کی دھتکارے ہوئے شیطان سے۔
 الله کے نام کے ساتھ جو رحمٰن اور رحیم ہے۔

"اور جب ان پر وعدہ پورا ہوگا تو ہم ان کے لیے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا کہ یہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں لاتے تھے۔‘‘

AN-NAML : 82

’’النمل کی آخری آیات میں ایک زمین کے جانور کا ذکر ہے جو قربِ قیامت زمین سے نکلے گا‘ اور لوگوں سے باتیں کرے گا۔ ویسے تو یہ ایک قیامت کی نشانی ہے مگر یہ اس سورۃ کے اختتام میں آئی ہے جوچیونٹیوں کی سورۃ ہے ...جس کے ہر واقعے میں ایک ایک چیونٹی اکیلی سارے عالم سے ٹکراتی ہے ‘ ان کو اصلاح کی طرف پکارتی ہے‘ ان کا ہاتھ ظلم سے روکتی نظر آتی ہے ....مگر ہر کوئی اسے نہیں سنتا....ہم چیونٹیوں جیسے لوگوں کی جب متکبر لوگ بات نہیں سنتے تو آخر میں زمین پھٹتی ہے ‘ اور بڑے بڑے جانور نکل کر...انہی جیسے خوفناک جانور نکل کے انہیں عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں....جب چیونٹیوں کو قدموں تلے پیسا جاتا ہے تو وہ کاٹیں یا نہ کاٹیں‘ زمین کے اندر چھپے جانوروں کو باہر نکال لاتی ہیں وہ....‘‘

اور آگے الله فرماتا ہے...’’‘. اورجس دن ہم ہر امت میں سے ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے پھر ان کی جماعت بندی ہو گی یہاں تک کہ جب سب حاضر ہوں گے کہے گا کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ تم انہیں سمجھے بھی نہ تھے یا کیا کرتے رہے ہو۔اور ان کے ظلم سے ان پر الزام قائم ہو جائے گا پھر وہ بول بھی نہ سکیں گے۔‘
AN-NAML : 83-85

یہ آیات ہر مظلوم کے دل کو ٹھنڈک دیتی ہیں۔ ان کو پڑھ کے ‘ ان کو سمجھ کے میں نے یہ جانا ہے کہ آج عدالتوں میں‘ ٹی وی پہ ‘ چوراہوں اور چوک میں‘ یہ ظالم ‘ بارسوخ کرپٹ لوگ کتنا مرضی جھوٹ بول لیں‘ ابھی قیامت نہیں آئی۔ اور جب آئے گی ‘ تو وہ بول بھی نہیں سکیں گے۔ اس دن ان کی کوئی صفائی ‘ کوئی توجیہہ نہیں سنی جائے گی ۔ ہاں کبھی تو ان ظالموں کی بھی زبان بند ی ہو گی۔ اس لئے ان کی زبانوں سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے۔

’’کیا نہیں دیکھتے کہ ہم نے رات بنائی تاکہ اس میں چین حاصل کریں اور دیکھنے کو دن بنایا البتہ اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔اور جس دن صور پھونکا جائے گا تو جوکوئی آسمان میں ہے اور جو کوئی زمین میں ہے سب ہی گھبرائیں گے مگر جسے الله چاہے اور سب اس کے پاس عاجز ہو کر چلے آئیں گے۔‘‘

AN-NAML : 86-87

یہ آیات سن کر میرے دوستو...کیا ہم صرف اپنے دشمنوں کی عاقبت کا سوچتے ہیں یا اپنا بھی سوچتے ہیں؟ کیا ہم اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہنے والے کام کر تے ہیں؟

’’اور تو جو پہاڑوں کو جمے ہوئے دیکھ رہا ہے یہ تو بادلوں کی طرح اڑتے پھریں گے اس الله کی کاریگری سے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنا رکھا ہے اسے خبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘

AN-NAML : 88

درست فرمایا الله نے ۔ چاہے وہ ظالم لوگ ہوں یا ظالم حالات یوں لگتا ہے وہ پہاڑ جیسے ہیں۔ جمے ہوئے۔ کبھی ہماری زندگیوں سے ‘ ہمارے راستوں سے نہیں ہٹیں گے...مگر ایسا نہیں ہے۔ میں نے ان ظالم لوگوں اور ظالم حالات کو روئی کے گالوں کی طرح دھنکے جاتے دیکھا ہے....باقی رہ جانے والا صرف الله ہے....باقی سب کو زوال آنا ہے....خود ہمیں بھی....

’’جو نیکی لائے گا سواسے اس سے بہتر بدلہ ملے گا اور وہ اس دن کی گھبراہٹ سے بھی امن میں ہوں گے۔‘‘

AN-NAML : 89

الله تعالیٰ ہمیں اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ ہمیں سکون ‘ انعام ‘ جنت ‘ یہ چیزیں اپنی نیکیوں کے ’’بدلے ‘‘ کے طور پہ نہیں ملیں گی‘ بلکہ جو بھی نیکی کرے گا اس کو اس کی نیکی سے ’’بڑھ کے‘‘ بدلے میں یہ سب ملے گا۔ پھر جب فیصلے کی گھڑی آئے گی ‘ تو یہ ہماری چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہوں گی جو ہمارے دل کو دنیا اور آخرت میں گھبراہٹ سے بچائیں گی۔ اگر آپ کا دل بات بہ بات گھبرا جاتا ہے تو آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر نیکیاں کیا کیجئے ۔ کسی کا دل رکھ لینا ‘ کسی کو پانی پلا دینا‘ زبان پہ طنز آ جانے کے باوجود کسی کو ہرٹ نہ کرنے کے لئے اس کو لبوں سے نہ نکالنا‘ خاموش رہنا....اور ایسے ان گنت کام آپ کے دل کو بہادر بنائیں گے....یاد رکھیں....ہر نیکی دوسری نیکی کا راستہ کھولتی ہے....

’’ اور جو برائی لائے گا سو ان کے منہ آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے تمہیں وہی بدلہ مل رہا ہے جو تم کرتے تھے۔‘‘
AN-NAML : 90

یعنی الله انسان پہ ظلم نہیں کرے گا۔ اس دنیا میں تو ہمیں ہمارے اعمال سے کم یا زیادہ مل جاتا ہے مگر اس بڑے دن ہمیں اس کا بدلہ ملے گا جو ہم کرتے تھے۔ ہم پہ کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ وہ وعدہ کرتا ہے تو اسے سچ کر کے دکھاتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ دعا مانگو ‘ میں قبول کروں گا‘ تو ہم اس وعدے کو سچ کرنے کے لئے دعا میں شدت کیوں اختیار نہیں کرتے؟ ہاں ہمارے ارد گرد کا معاشرہ بدل رہا ہے‘ لوگ بدل رہے ہیں‘ زمانہ بدل رہا ہے‘ مگر الله نہیں بدلے گا۔ الله کا وعدہ نہیں بدلے گا۔ الله اپنے سارے وعدے پورے کرے گا۔ کیا ہم کریں گے؟

’’(کہہ دو) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہر کے مالک کی بندگی کروں جس نے اسے عزت دی ہے اور ہر ایک چیز اسی کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں فرمانبرداروں میں رہوں۔اور یہ بھی کہ قرآن سنا دوں پھر جو کوئی راہ پر آ گیا تو وہ اپنے بھلے کو راہ پر آتا ہے اور جو گمراہ ہوا تو کہہ دو میں تو صرف ڈرانے والوں میں سے ہوں۔اور کہہ دو سب تعریف الله کے لیے ہے تمہیں عنقریب اپنی نشانیاں دکھا دے گا پھرانہیں پہچان لو گے اور تیرا رب اس سے بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔‘‘

AN-NAML : 91-93

اور ان آیات کو سنانے کے بعد ...میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں...کہ میں نے یہ جان لیا ہے کہ میرا کام تھاصرف پہنچا دینا ۔ہمارا کام پیغام پہنچا دینا ہوتا ہے۔ اسلام کو زبردستی لوگوں کے اوپر نافذ کرنا نہیں ہوتا۔ آپ دین کو جبر اور سختی سے کسی کے عمل میں شامل نہیں کر سکتے۔آپ ججز سے زبردستی انصاف بھی نہیں کروا سکتے۔ ہم نے صرف سچ کے لئے آواز بلند کرنی ہے ‘ ا سکے لئے لڑنا ہے ‘ کوشش کرنی ہے۔ ہمارے ہاتھ میں صرف کوشش ہے۔ کامیابی صرف الله کے ہاتھ میں ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر دفعہ کامیاب بھی ہوں‘ ہم ہر دفعہ جیتیں بھی سہی۔ ہم نے صرف اپنا ہنڈرڈ پرسینٹ دینا ہے۔ کیونکہ ہمارا یہی کام ہت۔ خود عمل کرنا اور صرف دوسروں کو پہنچا دینا۔ آگے کوئی مانے یا نہ مانے ‘ میں تو ہوں صرف پہنچا دینے والوں میں سے !‘

  نمرہ احمد کے ناول نمل کی آخری قسط سے ...

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں