امید



ہر کسان اپنا بیج جب مٹی میں گم کر دیتا ہے تو اس کے دامن میں ’امید‘ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا!زمین کی اس خاصیت پر اگر اس کا اعتماد نہ ہو کہ یہ ’دانے‘ کو کھا نہیں جائے گی جبکہ اس کے سوا ہر چیز جو اس میں ڈالی جائے یہ اس کو واقعتا کھا جاتی ہے، نم کی صلاحیت پر اگر اس کو بھروسہ نہ ہو کہ یہ بیج کو پھٹنے اور کونپل بننے میں مدد دے گا، ہوا اور دھوپ پر اگر اس کو یقین نہ ہو، اور سب سے بڑھ کر بیج کی صلاحیت سے اگر وہ مطمئن نہ ہو.... تو کبھی وہ اپنے کھانے کے دانے مٹی کو نہ دے آیا کرے! مگر بات یہ ہے کہ اپنے یہ دانے اگر وہ رکھ بھی لے تو آخر کب تک کھائے گا؟! ’دانے‘ تو ’مٹی‘ سے ہی ایک نیا جنم پاکر آئیں تو بات بنتی ہے!

پس ’امید‘ تو کچھ کھو کر پانے کی ترکیب کا نام ہے! ’امید‘ یہ نہیں کہ آدمی اپناسب کچھ اپنے پاس رکھ چھوڑے اور اپنی کسی لذت کی قربانی کا روادار نہ ہو! ایسا شخص تو آخری درجے کا ’ناامید‘ کہلانے کا مستحق ہے!

انتخاب از ایقاظ میگزین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں