مسافر سفر اور منزل






سفر ….درحقیقت خود کو دریافت کرنے کا عمل ہے ….ایک گم گشتہ ”خود“ کی دریافت کا عمل ….خود کو بازیافت کرنے کا عمل ! …. اِس یافت اور بازیافت کے دائرے میں سفر کرتا ہوامسافر اپنی ” میں “ کھو بیٹھتاہے ….تاکہ وہ کسی ”تو“ کے حضور باریاب ہوسکے ۔ ”میں “ …. جب ”تو“ کے حضور پہنچتی ہے تو ”من و تو“ کی بحث ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ کوئی ”در“ یافت ہوجائے تو نایافت …. یافت ہونے لگتاہے ۔ باہر ”تو“ دریافت ہوتے ہی ”من ‘ ‘ کا ”اندر“ بازیافت ہوجاتاہے
 !!
یہ سفر نہیں بلکہ اندازِ سفر ہے جومسافر کی منزل کا پتہ دیتاہے۔ کوئی منفی انداز کسی مثبت منزل تک نہیں لے جاسکتا۔ کوئی متغیر اور منفی طرزِ فکر اُس منزل تک رسائی نہیں پاسکتاجسے ثبات اور اثبات کانام دیاجاتاہے ۔ بہت سے مسافر سوئے کعبہ روانہ ہوئے مگر اُن کی نیّت اُنہیں ذات کی بجائے ذاتیات میں لے گئی …. اُن کا اندازِ سفر اُنہیں اپنے مفادات کے سومنات کی طرف لے گیا۔ درحقیقت سوئے حرم جانے والے مسافر کی راہ میں ہر غرض ایک بُت ہے ….ہر مفاد ایک معبود

مسافر سفر اور منزل کے درمیان ایک راز عجب ہے ۔ مسافر سفر کرتا ہوا خود ہی نشانِ منزل بن جاتاہے …. اور آخر ِ کارخود ہی منزل!!

گویا مسافرجب اپنے سفر کے اختتام کو پہنچتاہے تو خود کو بصورتِ منزل پاتا ہے...... بلاشبہ خود کو پانا ہی منزل پانا ہے.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں