مقتل کے باسیوں کا اب حال کیا سنائیں۔۔۔ ابو یحییٰ




مقتل کے باسیوں کا اب حال کیا سنائیں


(یہ مضمون سر ابو یحییٰ کی نئی کتاب "ملاقات" میں شامل ہے۔ سر نے یہ مضمون آج پشاور میں دہشت گردی کے واقعے میں شہید ہونے والے بچوں کے نام کیا ہے ۔ فیس بک پر یہ مضمون قارئین کے لیے خاص طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ایڈمن)
میری طبیعت اشعار کہنے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوئی۔ زندگی میں شاید ایک آدھ شعر ہی کبھی کہا ہوگا۔ پچھلے دنوں بیرون ملک مقیم ایک عزیز دوست نے میری خیریت معلوم کی تو میں نے جواب دیا: ’ہماری کیا پوچھتے ہو، ہم تو ایک مقتل میں زندہ ہیں‘۔ اپنے اردگرد پھیلے حالات کی مناسبت سے، جن کے لیے’ مقتل‘ سے زیادہ موضوع تعبیر ملنا مشکل ہے، چند اشعار موزوں ہوگئے ہیں۔ آج کی ملاقات میں بات انھی اشعار سے شروع کررہا ہوں۔


مقتل کے باسیوں کا اب حال کیا سنائیں
خونی سمندروں کا ہم رنگ کیا بتائیں
قاتل بھی اپنے پیارے، مقتول بھی ہمارے
کس سے گلہ کریں ہم، کس کو لہودکھائیں
ہر صبح ایک دہشت، ہر شام ایک وحشت
جب گھر ہی جل گیا ہو ،تو آگ کیا بجھائیں
لیکن ہے حکمِ مالک مایوسیاں مٹانے
اس آگ سے ہی پر ہم اپنا دیاجلائیں
تاریکیوں کا کیاغم جب رب کا ہو سہارا
مایوسیوں میں آؤ روشن دیا جلائیں
روز جزاسے پہلے اُس زندگی سے پہلے
قہرِ خدا سے اپنی اِس قوم کو بچائیں
ریحاں کا ساتھ دے کر خوشبو کو عام کردو
لوگوں میں جوت حق کی دن رات ہم جگائیں

ہم ہی قاتل ہم ہی مقتول میں جس شہر اور جس ملک میں رہتا ہوں، انسانی جان جس طرح یہاں بے وقعت ہوچکی ہے، کم ہی کسی اور خطۂ ارضی میں ہوئی ہوگی۔ کراچی ہو یا بلوچستان، پنجاب ہو یا خیبر پختونخواہ کا علاقہ، ہر جگہ انسانی خون بے دردی سے بہایا جارہا ہے۔ کہیں جرائم پیشہ افراد معمولی چیزوں کے پیچھے معصوموں کو قتل کرڈالتے ہیں تو کہیں عوام الناس اور قانون کے رکھوالے ہی بے گناہوں کو سرعام وحشیانہ تشدد کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ کہیں بم دھماکے ہیں تو کہیں خود کش حملے، کہیں جلوسوں اور مزارات پر خون کی ندیاں بہائی جارہی ہیں تو کہیں بازاروں میں تاجروں کو خون سے نہلایا جارہا ہے۔ کہیں صلحا اور علما کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہیں سیاسی اور گروہی مفادات کے کھیل میں عام لوگوں کو کیڑے مکوڑوں کی مانند مارا جارہا ہے۔
یہ سب کچھ مسلمان کررہے ہیں۔ کہیں انتقام کے نام پر تو کہیں اسلام کے نام پر۔ غلط بیانی کررہے ہیں وہ لوگ جو کسی تیسرے ہاتھ یا باہر کی طاقت کو ان واقعات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یہ اللہ کو بھی دھوکہ دینے کی کوشش کررہے ہیں اور اہل ایمان کو بھی، مگر اپنے سوا یہ کسی اور کو دھوکہ نہیں دے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسری طاقت اور بیرونی ہاتھ اگر کچھ کرنا بھی چاہیں تو محض سرمایہ وغیرہ ہی فراہم کیا کرتے ہیں۔ خون کی ہولی تو اپنے ہی لوگ کھیل رہے ہیں۔ سارے باخبر لوگ جانتے ہیں کہ قاتل باہر سے نہیں آرہے، یہ بھی اپنے مسلمان بھائی بند ہیں۔
کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہورہے ہیں ہمیں قتل کررہے ہیں

انسانی جان کی حرمت اور اسلام ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے اور مجھے رہ رہ کر قرآن مجید اور حدیث کے وہ احکام یاد آرہے ہیں جو معاشرے میں انسانی جان کی حرمت قائم رکھنے کے لیے دیے گئے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ مسلمانوں کا معاشرہ ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ اللہ رسول اور اسلام کا نام لینے والوں کا معاشرہ ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہاں ہر جمعہ میں کروڑوں مسلمان جمعہ کا خطبہ سنتے ہیں۔ مگر کیا کیجیے، اس معاشرے میں خطباتِ جمعہ کے موضوعات ہی کچھ اور ہوتے ہیں۔ انسانی جان کی حرمت یہاں کبھی زیر بحث نہیں آتی، بلکہ جو تقریریں ہوتی ہیں وہ بارہا نفرت کی ایسی آگ بھڑکاتی ہیں جو فرقہ وارانہ خون ریزی کا باعث بن جاتی ہیں۔
قرآن و حدیث میں انسانی جان کی حرمت اور اس کی اہمیت کے بارے میں اتنی تفصیل سے کلام کیا گیا ہے کہ اگر اس کو بیان کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوجائے گی۔ میں اجمالی طور پر چند باتیں پیش کردیتا ہوں۔ دوسروں کو نہ سہی، مگر مذہب کا نام لے کر خون کی ہولی کھیلنے والوں اور درپردہ ان کی حمایت کرنے والوں کو شاید کچھ حیا آجائے۔
قرآن مجید کے آغاز میں سورۂ بقرہ آیت 84 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بیان کی ہے کہ انھوں نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہائیں گے۔ پھر بنی اسرائیل نے اس جرم عظیم کا ارتکاب کیا۔ اس پر قہر الٰہی بھڑکا اور یہ سزا سنائی گئی کہ اس رویے کا بدلہ دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت ترین عذاب ہے۔
اسی سورۂ بقرہ آیت 173 میں جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو احکام شریعت دینا شروع کیے تو پہلا حرام یہ بیان ہوا کہ مردار وغیرہ کو نہ کھایا جائے، مگر انسانی جان اللہ کے نزدیک اتنی قیمتی ہے کہ بھوک سے جان پر بن آئے تو انھیں کھانے کی اجازت دے دی گئی۔ انسانی جان کے تحفظ کے لیے یہ رعایت قرآن مجید میں اور بھی کئی جگہ بیان ہوئی ہے۔ اگلا حکم جو ذرا آگے (آیت 178) میں دیا گیا وہ قصاص کا ہے۔ یعنی حکومتِ وقت مقتول کے قتل کے بدلے میں قاتل کو موت کی سزا دے گی۔ اس قصاص کو معاشرے کی زندگی کا ضامن قرار دیا گیا، (آیت 179)۔ کیونکہ جب ایک قاتل کو سزائے موت ملتی ہے تو کسی اور شخص کے لیے آسان نہیں رہتا کہ وہ دوسرے انسان کو قتل کرنے کی جرأت کرے۔ مگر اس میں بھی یہ رعایت دی گئی کہ مقتول کے ورثا معاف کردیں تو قاتل کی جاں بخشی کردی جائے۔ گویا انسانی جان کی اتنی وقعت ہے کہ اس طرح کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک لازمی حکم واپس لے لیا۔
سورۂ مائدہ (32:5) میں ایک انسانی قتل کو کل انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا اور ایک انسانی جان بچانے کو کل انسانیت کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ انسانی جان کی حرمت اور عظمت پر اس سے زیادہ بڑی بات کل مذہبی اور قانونی لٹریچر میں کہیں اور نہیں ملتی۔ پھر قتل مؤمن کو تو قرآن مجید نے ایک ایسا جرم قرار دیا ہے جس کی سزا پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’وہ شخص جو کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کے لیے اللہ نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘، (نساء 92:4)
اس آیت سے قبل ہی ایک تفصیلی ضابطہ اس ضمن میں بیان ہوا ہے کہ غلطی سے کسی مسلمان کا قتل ہوجائے تو اس کا کیا کفارہ ہے۔ حالانکہ قرآن مجید غلطی سے کیے گئے اعمال پر کوئی سزا مقرر نہیں کرتا، مگر ایک انسانی جان جانے پر انجانے پن اور غلطی کے باوجود بھی بھرپور سزا رکھی گئی ہے۔ یہ ہے انسانی جان کی اہمیت۔ جسے آج کے مسلمان اور ان کے نام نہاد رہنما مولی گاجر سے زیادہ وقعت دینے کو تیار نہیں۔
سورۂ نحل آیت 105 میں اللہ تعالیٰ اس حد تک گئے ہیں کہ جان بچانے کے لیے کلمۂ کفر کہنے تک کی اجازت دے دی ہے۔ ذرا سوچیے! انسانی جان کی حرمت کے ثبوت میں اس سے زیادہ بڑی اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ پھر بنی اسرائیل کی طرح مسلمانوں کو بھی سورۂ نسا آیت 29 میں صراحت سے باہمی خونریزی سے روکا گیا ہے۔ سورۂ حجرات آیت 6 میں سخت تنبیہ ہے کہ غیر معتبر اور غیر مصدقہ اطلاع پر کسی گروہ کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے کہ مبادا معصوم انسانی جانوں کا زیاں ہو۔
پھر دیکھیے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک یکطرفہ معاہدۂ امن قبول کرنے میں کیا مصلحت بیان ہوئی ہے۔ سورۂ فتح آیت 25 میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ صلح حدیبیہ کے وقت جنگ رکوانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ مکہ میں نومسلم موجود تھے جن کے اسلام کا مدینہ کے مسلمانوں کو علم نہ تھا اور اندیشہ تھا کہ جنگ کی صورت میں لاعلمی کی وجہ سے یہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جاتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر یہ نومسلم الگ ہوتے تو ہم ان کفار مکہ کو زبردست عذاب دیتے۔ گویا چند مسلمانوں کی جان بچانے کے لیے فتح مکہ کو مؤخر کرکے صحابہ کرام کو ایک ایسے معاہدے کو قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جو بظاہر ایک شکست تھی۔ اللہ اکبر! اللہ تعالیٰ کی نظر میں انسانی جان کی کیا وقعت ہے اور اسلام کے نام لیواؤں کی نظر میں یہ کتنی بے وقعت ہے۔

خودکشی کا معاملہ یہ تو دوسروں کے قتل کا معاملہ تھا۔ لیکن انسان کی اپنی جان تو بہرحال اس کی اپنی چیز سمجھی جاسکتی تھی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ غلط فہمی بھی دور کردی۔ انسانی جان کی حرمت اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک اتنی زیادہ ہے کہ کسی انسان کو یہ حق تک حاصل نہیں کہ وہ اپنی جان خود لے۔ چنانچہ خود کشی کے بارے میں رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جس نے اپنے آپ کو کسی لوہے سے قتل کیا تو وہ لوہا اس کے ہاتھ میں ہوگا کہ (بطور سزا) جہنم کی آگ میں اس سے اپنے پیٹ کو مارے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو زہر پی کر قتل کیا تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا کہ (بطورِ سزا) جہنم کی آگ میں اس کے گھونٹ بھرے۔‘‘، (مسلم، کتاب الایمان، باب: اپنے آپ کو قتل کرنے کی حرمت کا بیان)

ایک لمحے کے لیے اس روایت کو دوبارہ پڑھیے، خود کشی کے جرم کی سزا ابدی جہنم بیان ہوئی ہے۔ قرآن و حدیث کے ان احکام کی بنا پر خودکشی کو کوئی جائز قرار نہیں دے سکتا، مگر بدقسمتی سے آج کے دور میں بعض نادان عرب علما نے خود کش حملوں کو ’استشہاد‘ یعنی طلب شہادت کا عمل قرار دے دیا ہے۔ اس سخت وعید کے باوجود اس قسم کے فتوے کا ایک ہی سبب ہے۔ وہ یہ کہ ایسے حملوں سے دشمنوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ مگر دین بتانے کا اگر یہی معیار ہے تو پھر ان نادان عربوں سے بعید نہیں کہ کچھ ہی عرصے میں وہ مسلمان بہن بیٹیوں کو یہ تلقین شروع کردیں کہ وہ دشمنوں کے راز معلوم کرنے اور ان کی صفوں میں داخل ہوکر انھیں نقصان پہنچانے کے لیے خوشی خوشی اپنا جسم انھیں پیش کردیا کریں۔ پھر اسی بنیاد پر اس کے بارے میں بھی عالم عرب کے کسی مفتی کا فتویٰ آجائے گا کہ یہ بدکاری اور زنا نہیں بلکہ طلب جنت کا ’مقدس ‘عمل ہے۔ جس کے بعد جگہ جگہ مسلم خواتین کی بھرتی شروع ہوجائے گی اور انھیں ناز و انداز اور فحاشی کی تربیت اسلام کے مقدس نام پر دی جایا کرے گی۔ جب ہمارے جیسے ’جاہل‘ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس پر تنقید کریں گے تو عالم عرب و عجم کے سارے جذباتی مسلمان ایسے فتووں کی تائید اور ہماری مخالفت میں کھڑے ہوجائیں گے۔

پیغمبر انقلاب پیغمبر امنقرآن مجید کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین یعنی سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔ آپ جس دور میں تشریف لائے وہ مذہبی جبر یعنی (Religious Persecution) کا دور تھا۔ یعنی اس دور میں اسلام قبول کرنے کا مطلب یہ تھا کہ مشرک لوگ مسلمانوں پر صرف ان کے ایمان کی وجہ سے بدترین ظلم و ستم شروع کردیتے تھے۔ اس صورتحال میں یہ ضروری تھا کہ جنگ کے ذریعے سے ان مشرکین کی کمر توڑدی جائے تاکہ انسانیت کے ہر فرد کو بلاخوف و تردد یہ فیصلہ کرنے کا موقع مل جائے کہ وہ دلیل کی بنیاد پر دین حق کو قبول کرتا ہے یا نہیں۔ اس پس منظر میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلاف جنگ و قتال کا حکم دیا گیا۔ مگر جنگ کے احکام اس طرح دیے گئے کہ لڑائی میں کم سے کم جانی نقصان ہو۔ مثلاً جب تک مدینہ میں مسلمانوں کی ریاست قائم نہیں ہوئی، انھیں تلوار اٹھانے کی اجازت نہ تھی۔ حالانکہ مکہ میں مسلمانوں پر بدترین ظلم ہورہے تھے اور عمر، حمزہ، علی اور دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین اتنی تعداد میں موجود تھے کہ ظالموں کو مزہ چکھایا جاسکتا تھا۔ مگر مکہ میں حبشہ اور مدینہ ہجرت کی اجازت تو دی گئی، جنگ کی اجازت کبھی نہیں دی گئی۔ یہ اجازت صرف اس وقت ملی جب مدینہ میں مسلمانوں کا اقتدار قائم ہوگیا اور رسول اللہ ایک ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے مدینہ کے تاجدار بن گئے۔قتال کے لیے ریاست و اقتدار کی یہ شرط اس لیے رکھی گئی ہے کہ ریاست تلوار اٹھانے والے افراد کے تمام اقدامات کی ذمہ دار ہوتی ہے اور اس کا ہر قدم پوری ریاست کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر اٹھایا جاتا ہے نہ کہ بعض لوگوں کے احساسات و جذبات کے لحاظ میں ۔ اس اقتدار کے قائم ہونے کے بعد بھی ایک خاص تناسب کے بغیر جنگ فرض نہیں کی گئی، (انفال 66:8)۔ پھر خود نبی رحمت نے انسانی جان کے تحفظ کے لیے جو حکمت عملی مختلف مواقع پر اختیار کی؛ جس کی ایک مثال صلح حدیبیہ کی شکل میں اوپر بیان ہوئی ہے، اس کی بنا پر یہ عظیم اور ناقابل تصور واقعہ پیش آیا کہ پورا عرب مسلمان ہوگیا اور بمشکل ہزار آدمی مارے گئے۔ جبکہ موجودہ زمانے کے انقلاب فرانس، انقلاب روس وغیرہ میں لاکھوں کروڑوں لوگ مارے گئے۔ خدائے رحمن کے احکام اور نبی رحمت کا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک انسانی جان کتنی محترم تھی۔ مگر آہ! آج ان کے نام لیواؤں کے نزدیک انسانی جان اور کیڑے مکوڑے میں کوئی فرق نہیں رہا۔

منافقین کے بارے میں نبی کریم کے اسوہ حسنہ کی رہنمائی پاکستان میں قتل و غارت گری کی دیگر وجوہات پر اس مختصر ملاقات میں گفتگو ممکن نہیں کیونکہ اس کی کئی جہتیں ہیں۔ البتہ اس قتل و غارتگری کی ایک وجہ پر میں یہاں مختصراً گفتگو ضرور کرنا چاہوں گا۔ وہ ہے مذہبی وجوہات پر دوسروں کا قتل۔ ہمارے ہاں فکری اور نظری اختلاف کی بنیاد پر کسی کو بھی کافر قرار دے کر اس کے قتل کا فتویٰ جاری ہوجاتا ہے۔ یہ کام اسلام اور علم کے نام پر کھڑے بعض لوگ بے دریغ کرتے ہیں۔ جس کے بعد روبوٹ جتنا عقل و فہم رکھنے والی قتل کرنے کی مشینیں قتل و غارتگری کا طوفان مچادیتی ہیں۔ ان انسان نما روبوٹوں کو تو خیر کیا سمجھایا جائے۔ قتل کا فتویٰ دینے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو البتہ سمجھانے کی غرض سے نبی رحمت کا طریقہ ہم ان کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ شاید کسی کو توبہ کی توفیق نصیب ہوجائے۔
رسول اللہ کے دور میں عبد اللہ ابن ابی اور دیگر منافقین کا ایک گروہ موجود تھا جو ہر طرح سے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے، اذیت دینے اور تباہ کردینے کی کوششوں میں برسہا برس مصروف رہا۔ یہ وہ دور تھا جب وحی نازل ہورہی تھی۔ رسول اللہ کو ان میں سے ہر منافق کے بارے میں نام بنام علم تھا۔ بعض دفعہ ان منافقین کا فساد اتنا بڑھ گیا کہ صحابہ نے حضور سے درخواست کی کہ ان لوگوں کے قتل کا حکم جاری کردیا جائے۔ مگر خدائے رحمن اور نبی رحمت کا طریقہ دیکھیے۔ اس کی کبھی اجازت نہ دی گئی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ وجہ صرف یہ تھی کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ظاہر میں مسلمان کہتے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ یہ لوگ اپنے دعوائے ایمان میں بالکل جھوٹے تھے جن کے جھوٹ کی قلعی قرآن مجید نے بار بار کھولی ہے۔ اس کے باوجود ایک اصول قائم کرنے کی خاطر ان کو قتل نہیں کیا گیا۔ وہ اصول یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص خود کو مسلمان کہہ رہا ہو اور اس نے ان دیگر حدود کو پامال نہ کیا ہو جن کی سزا شریعت میں موت مقرر کی گئی ہے جیسے قصاص وغیرہ، محض منافقت اور دشمنوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاکر اس کو قتل کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ یہ وہ اصول ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے خود قائم کیا ہے۔ اگر کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ گمراہی کا شکار ہے تو وہ یقیناًان کی غلطی کو واضح کرے، مگر ان کے قتل کا فتویٰ دینا، اس کی حمایت کرنا، یا ان کو قتل کردینا، یہ سب دراصل اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کو چھوڑ کر ابلیس کے اس طریقے کی پیروی کرنے کے مترادف ہے جو سرتاسر سرکشی کا طریقہ ہے۔

حضرت اسامہ کا واقعہ اس ضمن میں کتب احادیث میں بعض واقعات بیان ہوئے ہیں جو انسانی جان کی اس حرمت اور تحفظ کا نہ صرف کھلا بیان ہیں جو ایک شخص کو قانونی طور پرایمان لانے کے بعد حاصل ہوجاتا ہے بلکہ اس میں اس غضب کا بھی بیان ہے جو اس اصول کی خلاف ورزی پر رحمت للعالمین نے ظاہر فرمایا۔ ہم صحیح بخاری و مسلم میں نقل ہونے والا ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کے صاحبزادے حضرت اسامہ کا ہے۔ حضرت زید اور ان کے بیٹے اسامہ حضور کو کتنے محبوب تھے یہ بات سیرت نبوی سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں، مگر پھر بھی اس واقعے میں حضور کا ردعمل ملاحظہ فرمائیے:
’’سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ (۔۔۔دوران جنگ) میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا۔ میں نے برچھی سے اس کو ماردیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا (کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟ (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا؟) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعد ایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں)۔‘‘
اس واقعے سے متعلق دیگر روایات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کافر نے کئی مسلمانوں کو قتل کیا تھا اور قرائن سے واضح تھا کہ اس کافر نے حضرت اسامہ کی زد میں آجانے کے بعد صرف موت کے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ مگر پھر بھی آپ نے دیکھ لیا کہ اللہ کے رسول کا ردعمل کیا تھا۔ بلکہ ایک دوسری روایت میں جو سب سے سنگین پہلو بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت اسامہ نے حضور سے درخواست کی کہ آپ ان کی بخشش کی دعا کیجیے تو حضور دعا کرنے کے بجائے بار بار یہی کہتے رہے کہ ’’تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟‘‘۔ یہ ہے اللہ اور رسول کے نزدیک انسانی جان کی حرمت۔ اب جس کو اللہ اور اس کے رسول سے محبت ہے اس پر فرض ہے کہ وہ انھی کے طریقے کو اختیار کرتے ہوئے انسانی جان اور خاص کر مسلمان کی جان، چاہے وہ مسلمان اس کی نظر میں منافق اور کافر ہی کیوں نہ ہو، کی حرمت کا پاس کرے۔ وگرنہ قیامت کے دن ایسے لوگ خدا کے حضور قاتلوں کے روپ میں پیش ہوں گے اور قاتلوں ہی کے انجام کو پہنچیں گے۔

مسلمان کی جان کی حرمت کے حوالے سے چند احادیث یہ تو ایک واقعہ تھا، مگر انسانی اور خاص کر ایک مسلمان کی جان کی حرمت کے ضمن میں سرکار دوعالم رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اارشادات ایسے ہیں جو آج ہر مسلمان اور خاص کر اسلام کا نام لے کر معصوم مسلمانوں کی قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنے والوں اور ان کی درپردہ حمایت اور فکری پشت پناہی کرنے والوں کو سنانا شاید دین کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ اس ضمن میں چند ارشاداتِ نبوی جو صحیح بخاری سے لیے گئے ہیں،درج ذیل ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
’’تمہارے (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجہ) اور اس شہر (مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچادی؟ صحابہ نے (بیک آواز) عرض کیا: جی ہاں۔‘‘
اسی موقع پر آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
’’دیکھو!میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔‘‘
’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔‘‘
’’جس نے ہم (مسلمانوں) پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ اسے کیا معلوم کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے اسے (ہتھیار کو)گرادے (یا چلادے) تو (مسلمانوں کو قتل کرنے کی وجہ سے) وہ جہنم کے ایک گڑھے میں جاگرے۔‘‘
’’جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا: اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔‘‘



پس نوشت میں اس مضمون پر نظر ثانی سے فارغ ہوا ہی تھا کہ درۂ آدم خیل میں نماز جمعہ اور پشاور میں نماز عشا میں خود کش حملوں میں 100 سے زائد نمازیوں کی شہادت کے المناک واقعات پیش آئے۔ ہم کمزور و عاجز لوگ اور اس مقتل کے باسی اپنے ان معصوم اور بے گناہ بھائیوں کا مقدمہ اپنے پروردگار کے حضور پیش کرتے ہیں جنھیں خدا کے نام پر کھڑے لوگوں نے خدا کی عبادت کرتے وقت پورے شعور اور ارادے کے ساتھ مارا۔ ہم اس مقدمے میں صرف قاتلوں کو نہیں بلکہ اسلام کے نام پر کھڑے ان تمام صحافیوں، مذہبی سیاسی جماعتوں کے امرا اور خود کو علما اور اہل حق کہلوانے کے شوقین لوگوں کو بھی نامزد کرتے ہیں جن کے فتووں، تاویلوں اور درپردہ حمایت نے آج مسجدوں کو مقتل میں بدل دیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب تمام مقتولوں کو زندہ کیا جائے گا۔ وہ اذان و اقامت کہتے اور کلمہ پڑھتے ہوئے اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں گے۔ قاتلوں اور ان کے حمایتیوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ان بے گناہ کلمہ گو مسلمانوں کا مقدمہ خود آقائے دوجہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش کریں گے۔ پروردگار عالم قاتلوں اور ان کے حمایتیوں سے تو کوئی سوال نہیں کرے گا، البتہ معصوم و بے گناہ نمازیوں کو مخاطب کرکے ان سے ضرور پوچھا جائے گا کہ تمھیں کس جرم میں مارا گیا تھا؟
اس روز سب سے زیادہ بدنصیب وہ سفاک قاتل نہیں ہوگا جس نے خدا کے آگے سربسجود ہونے والوں کو ان کی لاعلمی میں خودکش حملوں کا نشانہ بنایا ہوگا، اس لیے کہ اسے تو صرف ان مقتولوں کا حساب دینا ہوگا جن کو اس نے قتل کیا تھا۔ اس روز اصل بدنصیب تو ان کے وہ حمایتی ہوں گے جن کو خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے ہر ہر مقتول کے مقدمے کے موقع پر بلایا جائے گا کیونکہ انھی کے فتووں، تاویلوں ،پردہ پوشی اور خاموش حمایت نے ان مظلوموں کے قتل کی راہ ہموار کی تھی۔ پھر قتل کے ہر جرم کا ایک حصہ ان کے نامۂ اعمال میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ وہ دن ہوگا جب ان کی کوئی تاویل اور ان کی کوئی چالاکی ان کے کام نہ آئے گی۔ فلیضحکوا قلیلا ولیبکوا کثیرا۔
باقی رہے اس مقتل کے باسی تو وہ ہر ظالم اور ہر قاتل کے مقابلے میں صرف اپنے پروردگار کی پناہ چاہتے ہیں۔ اللھم انا نجعلک فی نحورھم و نعوذبک من شرورھم۔ اے اللہ! ہم ان کے مقابلے میں تجھ کو لاتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں، (صحیح الجامع 4706)۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں