یوم دفاع

Image result for ‫یوم دفاع‬‎

یوم دفاع

6 ستمبر1965 .. یعنی یوم دفاع پاکستان . وہ دن جب پاکستانی افواج اور خاص طور پر پاک فضائیہ نے بہادری کی عظیم داستانیں رقم کی ، جب اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کو ناکوں چنے چبوا کر یہ باور کرا دیا تھا کہ جنگیں محض اسلحے یا حجم سے نہیں لڑی جاتی ہیں بلکہ افواج میں جان قربان کرنے کا جذبہ ہو اور اسے قوم کی حمایت حاصل ہو تو وہ اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کو زیر کر سکتے ہیں .

میں تاریخ کے واقعات کم لکھتا ہوں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم تاریخ سے سبق اور جذبہ تو حاصل کر سکتے ہیں پر یہ یاد رہے ہر آنے والا دن مختلف ہوتا ہے ہر آنے والی جنگ الگ نوعیت کی ہوتی ہے . اور ہمیں یاد رکھنا چاہیئے اب جو جنگ ہوئی وہ حجم میں شاید ١٩٦٥ کی جنگ سے بہت بڑی ہوگی اور بہ یک وقت بہت سے دشمنوں سے بہت سے محاذوں پر لڑنا ہوگا .

اگر آپ گزشتہ ١٠ سال ہی دیکھ لیں تو ہماری افواج دنیا کی مشکل ترین جنگ میں الجھی ہوئی ہیں جس میں دشمنوں کی تعداد اور اقسام بدلتی جارہی ہیں . ایسا لگتا ہے جیسے پوری ترتیب کے ساتھ دشمن نے مہرے کھڑے کر دیے ہیں کہ ایک کے گرتے ہی دوسرا مہرہ آن کھڑا ہوتا ہے ایک نئی شاطر سوچ اور گھناونے منصوبے کے ساتھ .

اگر میں یہ کہوں کے گزشتہ ١٠ سالوں سے اس قوم کا ہر دن یوم دفاع ہے تو غلط نہ ہوگا اور یقیناً مورخ جب تاریخ لکھے گا تو ان دس سالوں میں ہونے والی دس ہزار سازشوں پر اسکا قلم ضرور خشک ہوگا اور وہ بار بار حقائق پلٹ پلٹ کر دیکھے گا کہ کیا واقعی کوئی قوم اور اسکی سپاہ اتنی سازشوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش تھی . کیا واقعی دشمن تیر پر تیر پھینکے جارہا تھا کبھی سرحد پار سے اور کبھی گھر کے اندار سے ہی اور یہ قوم اور اس کی سپاہ اپنے سینوں پر ان تیروں کو روکتے رہے ؟ یہ سب جاننے کے بعد مورخ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ یقیناً یہ ایک عظیم قوم ہے ..

ستمبر ١٩٦٥ میں دشمن واضح تھا نگاہیں سرحد پر تھیں کہ یہیں سے دشمن حملہ کرے گا . پر آج کے ستمبر کو اگر ستم گر کہا جاۓ تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ اس ستم گر میں دشمن چہار سو پھیل چکا ہے اب اگر ایک نگاہ سرحد پر رکھنی ہے تو دوسری نگاہ گھر کے اندر موجود دشمن کے آلہ کاروں پر بھی رکھنی ہے سرکے سامنے اور سر کے پیچھے دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہے . یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ اس خطے کے مسلمانوں کے خلاف سازش بنی گئی ہو یا اس خطے کے مسلمانوں کی صفحوں میں غدار پیدا کئے گئے ہوں ، اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو محمود غزنوی کی سپاہ بھی جب ہندوستان آئی تھیں تو اس سازشوں کی حسین سرزمین نے اسکے لوگوں میں بھی سلطان کے خلاف باغی پیدا کے . الله کو اکبر ماننے والے ایک دوسرے کے دست و گریباں ہوئے آخر میں فتح تو حق کی ہی ہوئی اور سلطان سرخرو ہوا پر یہ حقیقت اسے ماننا پڑی کہ ہندوستان جیسی سازشی زمین اور اس میں رہنے والی برہمن قوم جیسی شاطر سوچ شاید ہی کسی اور قوم میں ہو .

یہی وجہ ہے کہ آج کا ستمبر ١٩٦٥ کے ستمبر سے بہت زیادہ سخت ہے اب قوم بھی مختلف حصّوں میں بٹی ہوئی ہے اور افواج بھی کہیں سیلاب دیکھ رہی ہے کہیں ضرب عضب اور کہیں دیگر اندرونی اور بیرونی خطرات . پہلے دشمن واضح تھا اور دشمن کا نعرہ " بھارت ماتا کی جے ہو " تھا اور اب دشمن واضح نہیں ہے اور اب دشمن بھی اسکو بنا دیا گیا ہے جو نعرہ " الله اکبر " کا لگاتا ہے ، یعنی شاطر سوچ نے ہماری صفحوں میں ہی دشمن پیدا کردیا جو لڑائی وہ دوبدو لڑتا تھا اب اپنے مہروں کے ذریعے ہزاروں میل دور بیٹھ کر لڑ رہا ہے . اسکی سوچ کل بھی پاکستان کی بربادی تھی اور آج بھی پاکستان کی بربادی ہی ہے . ہاں پہلے وہ خود لڑتا تھا اور اب اسکے لئے لڑنے والے بہت سے میر جعفر پیدا ہو چکے ہیں .

سوات آپریشن میں شامل ایک فوجی دوست کے بقول " جب میں سامنے سے الله اکبر کی سدا سنتا تھا تو کچھ دیر کو اپنا فائر بند کردیتا تھا کہ کہیں اسکی صدا ادھوری نہ رہ جائے اور بے حرمتی نہ ہوجائے ، پر دشمن نے بہت گہری چال چلی تھی ہمارے مخالف سے الله اکبر کی صدا تو آتی تھی پر ان کا کوئی کام ایسا نہیں تھا کہ جس سے یہ کہا جائے کہ وہ واقعی الله کو اکبر مانتے ہیں .
ہمارے خلاف جو لڑ رہا تھا وہ ہمارے ہی جیسا تھا پر پھر بھی ہم سا نہیں رہا تھا ...

جس طرح ہم آج ستمبر ١٩٦٥ کے شہیدوں کو یاد کرتے ہیں ٹھیک ویسے ہی پچھلے دس سالوں سے جاری تاریخ کی سب سے عجیب نوعیت کی جنگ میں شہید ہونے والوں کو بھی ہمیں یاد رکھنا ہوگا ، میرے چار دوست سوات آپریشن میں شہید ہوئے ، میں خود ہمیشہ سے ہی ایک ادھورا سا مسلمان رہا ہوں دین کی زیادہ سمجھ نہیں رکھتا پر ان دوستوں کے بارے میں مجھے پورا یقین ہے بے شک وہ اپنے ایمان میں سچے تھے اسی لئے شہادت کا درجہ پا گئے ، میں کبھی ان کے گھر والوں سے ملنے نہیں گیا ، شاید وہاں جاؤں اور اپنے دوستوں کو نہ دیکھ پاؤں تو اپنے آنسو نہیں ضبط کر پاؤں گا کیوں کہ جوان اولاد کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر منوں مٹی تلے چھوڑ آنا اور پھر بھی چہرے پر اطمینان کا ہونا صرف ایک شہید کے باپ کا ہی طرہ امتیاز ہوسکتا ہے اور اپنے لخت جگر کو یاد کر کے کبھی آنکھیں بھگونا اور کبھی بے اختیار مسکرانا ایک شہید کی ماں کا ہی ہنر ہوسکتا ہے ، مجھ جیسے لوگ اتنا بڑا دل نہیں رکھتے پر بقول استاد جی " یہ جو شہید ہوتے ہیں نہ . انکے والدین پر بھی الله پاک کا خاص کرم ہوتا ہے اور جب وہ پاک ذات کہتی ہے کہ شہید کو مردہ نہ کہو تو پھر بتا وہ شہیدوں کے والدین کے دلوں کو غم میں کیسے ڈال سکتا ہے ؟ جسکی اولاد تا قیامت امر ہوگئی ہو وہ دل بھلا پشیمان کیوں ہو ؟ "

میں آج ان تمام بہنوں کو مبارک باد دیتا ہوں جن کے بھائی ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے ان ماؤں اور ہر اس بوڑھے باپ کو سلام جنھوں نے اپنا لخت جگر قربان کر دیا اور اس شہیدوں کی سرزمین کو رونق بخش دی. بیشک ہم اس کا بدلہ نہیں اتار سکتے پر اتنا ضرور پتا ہے کہ الله کے پاس آپکے صبر اور قربانی کا بہت بہترین اجر ہے اور بے شک ایک وہی ذات ہے جو اس قربانی کا ٹھیک ٹھیک اجر دے سکتا ہے .

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں