امید کے جگنو


کبھی کبھی ہوتا ہے نا کہ ہم خوش اور مگن ہوتے ہوئے بھی مطمئن نہیں ہوپاتے۔ زندگی ایک دائرے میں گھومتی محسوس ہوتی ہے اور تب ایک انجانی سی تھکن وجود کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ ہر سفر بے سمت، ہر کام بے معنی سا لگنے لگتا ہے۔ انہی سوچوں میں گھرا دیکھ کر مایوسی اپنے پر پھیلاتی ہے اور ناامیدی ہمارے دل و دماغ پر اپنے پنجے گاڑھ لیتی ہے۔ ناامیدی ہم سے وہ معمولی خوشیاں بھی چھین لیتی ہے جو ہر ابھرتے سورج کے ساتھ ہمیں چلتے رہنے کی ہمت دیا کرتی ہیں۔ بے انتہا شور میں گھرے ہوئے بھی ہمیں اپنے اندر صرف ایک مہیب سناٹا سنائی دیتا ہے۔ ۔ ۔ روشنیوں کی چکاچوند میں بھی ہر طرف اندھیرا چھاتا محسوس ہوتا ہے مگر اس اندھیرے میں بھی امید کے جگنو راستہ دکھانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بالکل اس کہانی کی طرح جس میں اندھیری رات میں بھٹکتے بلبل کو جگنو نے راستہ دکھایا تھا۔ امید کے جگنو زندگی کے بے مقصد دائروں میں بھٹکتے تھکن زدہ انسان کے ہاتھ تھامتے ہیں اور ناامیدی سے امید تک کا سفر طے کرواجاتے ہیں۔ سوچیں تو حیران رہ جائیں کہ ان معمولی، چھوٹی سی جانوں میں اتنی طاقت کہاں سے آجاتی ہے کہ یہ میلوں پھیلے سناٹے کو اپنی ذرّوں جیسی روشنی سے چیرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ طاقت انہیں امید دیتی ہے۔ امید انہیں یقین بخشتی ہے کہ اجالا کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، اندھیرے پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسے کالی رات میں سورج کی پہلی ننھی سی کرن کچھ سہمی ہوئی سی آگے بڑھنے سے گھبراتی ہے تو امید کے جگنو اس کے ہاتھ تھام کر اسے بھی اس خوف سے نکال لاتے ہیں۔ پھر اسے دیکھتے دیکھتے سورج کی بہت سی کرنیں اندھیرے کو اجالے میں بدلنے میں اس کے ساتھ آکھڑی ہوتی ہیں۔ اصل ہمت پہلی کرن کو کرنی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ دقت کا سامنا اس پہلی کرن کو کرنا پڑتا ہے، مگر پھر امید کے جگنوؤں کے سہارے یہ آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس اندھیرے سے اجالے کے سفر میں بہت سی کرنیں اس کی ہم سفر ہوجاتی ہیں۔ اندھیرا جتنا بھی گہرا ہو، امید کے جگنو اس اندھیرے کو اجالے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ ضرورت صرف ان پر اعتماد کرنے کی ہے۔ ہاتھ بڑھائیے اور امید کے جگنوؤں کے بڑھے ہاتھ تھام کر ان کے ساتھ اجالے کے سفر میں شامل ہوجائیں۔ ۔ ۔ زندگی بہت با مقصد لگنے لگے گی

2 تبصرے: